پاکستان کی وفاقی کابینہ نے تاحال آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق فنانس بل میں ترمیم کی منظوری نہیں دی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط ٹیکسوں میں عائد چھوٹ ختم کرنے اور مزید ٹیکس عائد کرنے سے مشروط کر رکھی ہے۔
مبصرین کے خیال میں قانون سازی اور اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے میں تاخیر سے پاکستان کے اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا۔
منی بجٹ لانے کے لیے حکومت نے رواں ہفتے کے آغاز میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا تھا تاہم اسے ملتوی کردیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کا یہ اجلاس اب 22 دسمبر کو بلایا گیا ہے۔
وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آج کے اجلاس میں منی بجٹ زیر بحث نہیں آیا ہے۔
حکومت کی جانب منی بجٹ لانے کے اعلان کے باوجود وفاقی کابینہ سے منظوری میں تاخیر اور قومی اسمبلی کے بلائے گئے اجلاس کے ملتوی ہونے سے معاشی و کاروباری حلقوں میں اضراب پیدا ہوا ہے۔
ماہرِ معیشت قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ پاکستان کی معاشی خود مختاری قرض دینے والوں کے سامنے یر غمال ہے۔ لہذا منی بجٹ آنا ہی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ رواں مالی سال میں یہ آخری منی بجٹ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت آئی ایم ایف قرض کی قسط روک سکتا ہے جو کہ پاکستان کے لیے مالی طور پر مشکل صورت حال پیدا کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا واحد معاشی مقصد اب صرف عوام سے ٹیکس بٹورنا رہ گیا ہے کیوں کہ عوام کی ضروریات اور وسائل مہیا کرنا سے اسے کوئی سروکار نہیں ہے۔
منی بجٹ لانے میں تاخیر کی وجوہات پر گفتگو کرتے ہوئے قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ بعض حکومتی وزرا حلقوں کی سیاست کرتے ہیں اور عام انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے انہیں خدشہ ہے کہ اس اقدام سے عوام کے غصے کا سامنا کرنا بڑھ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے مطالبات اگر مان لیے جاتے ہیں تو اس کے عوام پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اسی بنا پر سیاسی رہنما اس کی کابینہ میں مخالفت کر رہے ہوں گے۔
قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ معیشت کی بگڑتی صورتِ حال پر ریاست کے دوسرے اداروں کو بھی تشویش ہے کہ معیشت جس سمت میں جا رہی ہے یہ قابو میں آنے والی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی تشویش کے باعث منی بل تاخیر کا شکار ہے اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر ملتوی کر دیا گیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے جنوری کے اجلاس سے قبل پانچ اقدامات کا کہا ہے اور اس ضمن میں ابھی کافی وقت دستیاب ہے۔
انہوں نے کہا کہ فنانس بل میں یہ ترامیم فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے وزارتِ قانون کو ارسال کی گئی ہیں جس کے بعد اس کی وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی سے منظوری لی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ منی بجٹ نہیں بلکہ اصلاحاتی بجٹ ہے کیوں کہ ماضی میں منی بجٹ محصولات میں کمی کو پورا کرنے کے لیے لائے جاتے تھے جب رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں ٹیکس وصولیاں زائد ہوئی ہیں۔
مزمل اسلم نے کہتے ہیں کہ رواں مالی سال میں محصولات آئی ایم ایف کے نظرِ ثانی شدہ اہداف سے بھی آگے ہیں اور جنرل سیلز ٹیکس کے استثنیٰ کے خاتمے میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ عام آدمی پر اس کے اثرات نہ پڑیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیا پر جی ایس ٹی کا استثنیٰ ختم نہیں کیا جا رہا اور صرف لگژری درآمدی اشیا اس کی زد میں آئیں گی۔
مزمل اسلم نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے انکم ٹیکس کا استثنیٰ بھی ختم کرنے کا کہا تھا جسے ختم نہیں کیا جا رہا کیوں کہ اس سے براہِ راست آمدنی اثر انداز ہوتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کا 'منی بجٹ' لانے کا مقصد سالانہ بجٹ میں تعین کردہ اہداف میں تبدیلی ہے۔ گزشتہ ہفتے مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت آئندہ ہفتے منی بجٹ لا رہی ہے۔ البتہ اس سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوا کیوں کہ عام آدمی کے استعمال کی اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ ختم نہیں ہو گی۔
حکام اسے معاشی سمت میں بہتری کے ایک قدم کے طور پر بیان کر رہے ہیں جب کہ حزبِ اختلاف اس کو موجودہ حکومت کی معاشی میدان میں ناکامی سے تعبیر کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے منی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پیٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس میں اضافے سے ہر چیز مہنگی ہوگی۔ حکومت کیسے دعویٰ کر رہی کہ اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔
معاشی ماہرین بھی منی بجٹ کے ذریعے مہنگائی نہ ہونے کے حکومتی دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نئے ٹیکسوں سے اشیائے خور و نوش مہنگی ہوں گی۔
منی بجٹ جاری مالی سال کے دوران پہلے سے منظور شدہ اہداف میں رد و بدل کرنے کو کہا جاتا ہے، منی بجٹ عموماََ کسی ہنگامی حالت یا غیر متوقع معاشی صورتِ حال میں پیش کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں ایک فی صد اضافہ کر دیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے جاری اعلامیے کے مطابق شرح سود 8.75 سے بڑھ کر 9.75 فی صد ہو گئی ہے۔ اس اضافے کے بعد شرح سود 20 ماہ کی بلند سطح پر پہنچ گئی ہے۔
اس سے قبل 19 نومبر کو شرح سود میں ڈیڑھ فی صد اضافہ کیا گیا تھا۔
مجموعی طور پر صرف 24 دنوں میں شرح سود میں ڈھائی فی صد کا اضافہ کیا گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق شرح سود بڑھانے کا فیصلہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا گیا۔