سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیرمین، سینیٹر جان مک کین نے، جِن کا تعلق ریپبلیکن پارٹی سے ہے، ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سمجھوتے کی بدولت ایران کو اربوں ڈالر میسر آئیں گے، جِن سے وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ہتھیاروں کی ’ڈھیر ساری خریداری کرے‘ گا۔
جوہری سمجھوتے کے حوالے سے، مک کین اوباما انتظامیہ کے سرکردہ ناقد ہیں۔
سماعت کی ابتدا میں بدھ کے روز، اُنھوں نے نظام الاوقات کی جانب اشارہ کیا جس میں وہ اسلحہ اور ہتھیار خرید سکے گا۔ پانچ برس بعد، ایران لڑکا طیارے، جارحیت کی صلاحیت کے قابل ہیلی کاپٹر اور جنگی جہاز خریدنے میں آزاد ہوگا؛ جب کہ آٹھویں برس وہ جدید ترین بیلاسٹک میزائل کے لیے مواد حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
ایک طویل مدت سے منتخب ہونے والے قانون ساز نے، اوباما انتظامیہ کے اعلیٰ اہل کاروں، جِن میں وزیر خارجہ جان کیری، وزیر دفاع ایشٹن کارٹر، وزیر توانائی ارنیسٹ مونیز اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی سے سمجھوتے کے بارے میں سخت سوالات کیے۔ سمجھوتے کے بارے میں، اُن کا کہنا تھا کہ اِس سے مشرق وسطیٰ کے استحکام کو نقصان پہنچے گا۔
وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے سمجھوتے کا دفاع کیا جو اس ماہ کے اوائل میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پایا ہے، جس میں امریکہ بھی شامل ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ امریکی حکمت عملی کا محض ایک حصہ ہے؛ اور خطے میں ایران اور داعش کے شدت پسند گروہ کا مقابلہ کرنے کے لیے، امریکہ ’پوری رفتار سے‘ آگے بڑھ رہا ہے۔
یہ ایک ہفتے کے اندر تیسری سماعت ہے جِس میں انتظامیہ کے حکام نے قانون سازوں کے روبرو اِس معاملے پر شہادت پیش کی ہے۔
بدھ کو ماہرین کے ایک پینل نےاِس بات پر توجہ مرکوز رکھی آیا اِس سمجھوتے کے نتیجے میں ’مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات اور فوجی توازن‘ کیونکر متاثر ہوتا ہے۔
کانگریس کے پاس ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری سمجھوتے کا جائزہ لینے کے لیے 60 روز کا وقت ہے، اور ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے دونوں ایوانوں کی قائمہ کمیٹیوں میں صدر براک اوباما کی کابینہ کے اعلیٰ ارکان سے سخت سوالات کیے گئے؛ خاص طور پر کیری اور مونیر سے، جو کہ اِس ماہ کے اوائل میں طے ہونے والے سمجھوتے کا حصہ تھے۔