سیاسی مبصرین کے مطابق ترکیہ میں صدارتی الیکشن کے اتوار کو ہونے والے رن آف مرحلے میں صدر ایردوان کی کامیابی کے واضح امکانات ہیں۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کئی نوجوان ملک چھوڑنے کا ارادہ کررہے ہیں۔
صدارتی انتخابات کے 14 مئی کو ہونے والے پہلے مرحلے کے بعد استنبول اور انقرہ میں خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے انجینئرنگ کے پانچ طلبہ سے بات چیت کی۔ ان سبھی کا خیال تھا کہ ایردوان کے مقابل اپوزیشن کے امیدوار کمال کلیچدار اولو کی کاکرردگی مایوس کن رہی ہے۔
یہ نوجوان صدر ایردوان کے دو دہائیوں پر محیط دورِ اقتدار میں اختیار کی گئی پالیسوں کو ترکیہ کے معاشی مسائل کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے ملک کی سیکیولر شناخت تبدیل ہونے کے بارے میں بھی تحفظات ہیں۔
انہی مسائل کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بہت سے ترک نوجوان ملک چھوڑنے کے بارے میں اظہارِ رائے بھی کررہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ملک چھوڑنے کا ارادہ رکھنے والے ہزاروں نوجوانوں میں شامل ایمرے یورک نامی نوجوان کا کہنا ہے" ہم ایک خوب صورت ملک میں رہتے ہیں جسے اچھی طرح چلایا نہیں جارہا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوان ملک سے باہر جارہے ہیں۔"
ایک جرمن تنظیم کونراڈ ایڈناور فاؤنڈیشن نے 2022 کے اوائل میں ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ترکیہ میں 18 سے 25 برس کے 72 فی صد سے زیادہ افراد کا کہنا تھا کہ انہیں موقع ملے تو وہ ملک سے باہر رہنا پسند کریں گے۔
استنبول کی یدیتیپے یونیورسٹی سے وابستہ مدرس دیمیت لوکسلو کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت 'اے کے پی' اور دائیں بازو کی قوم پرست جماعت 'سی ایچ پی' کے حامی نوجونواں میں بھی ملک سے باہر جانے کے خواہش مند نوجوانوں کی شرح اتنی ہی زیادہ ہے۔
SEE ALSO: ترکیہ: معاشی بحران کے باوجود صدر ایردوان کی مقبولیت کیوں برقرار ہے؟ان کا کہنا ہے کہ نوجوان نہ صرف ملک کے معاشی حالات سے نالاں ہیں بلکہ مجموعی ماحول کی وجہ سےبھی دل گرفتہ ہیں۔
نوجوانوں کا رجحان
عام طور پر نوجوان بڑی عمر کے افراد کے مقابلے میں زیادہ قدامت پسند نہیں ہوتے اس لیے رائے عامہ کے مختلف جائزوں کے مطابق نوجوانوں نے ایردوان کے مد مقابل بائیں بازو کے امیدوار کو ترجیح دی ہے۔
لیکن کلیچدار اولو نے صدارتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں 44.9 فی صد ووٹ حاصل کیے اور ان کے مقابلے میں ایردوان کو 49.5 فی صد ووٹ حاصل ملے اور وہ صرف پانچ پوائٹس کی کمی کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے۔
SEE ALSO: ترکی: 'صدر کی توہین' کا قانون کیا ناقدین کو خاموش کرانے کا ذریعہ بن چکا ہے؟
ترکی میں صدارتی امیدوار کو الیکشن جیتنے کے لیے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں سے پچاس فی صد ووٹ حاصل کرنا تھے۔اس سخت مقابلے کی وجہ سے ترکیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدارتی الیکشن کے رن آف مرحلے کی نوبت آئی ہے۔
پچیس سالہ ایزگی، رن آف مرحلے میں کمال کلیچدار اولو کی کامیابی سے مایوس ہوچکی ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’احساسِ ذمےد اری‘ کے تحت وہ انہیں اپنا ووٹ دیں گی۔
خدشات و تحفظات
استنبول سے تعلق رکھنے والی ایزگی کا کہنا ہے کہ اگر ایردوان دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو وہ ملک چھوڑ دیں گی۔
دیگر خواتین کی طرح ایزگی خاص طور پر دائیں بازو کے چار قدامت پسند کرد قانون سازوں کے انتخاب سے ناخوش ہیں۔ جن کا تعلق کرد نواز جماعت ہدی پارٹی سے ہے اور یہ طیب ایردوان کی اتحادی ہے۔
یہ جماعت خواتین کے بہت سے حقوق کی مخالف ہے اور ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث بعض گروپس بھی اس سے تعلق رکھتے ہیں۔
صدر ایردوان کی پارٹی 14 مئی کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کر کے پارلیمنٹ میں برتری حاصل کرچکی ہے اور نئے اتحاد میں شامل دائیں بازو کی جماعتوں کی وجہ سے امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پالیسی سازی پر ان کے اثرات بھی بڑھیں گے۔
ترکیہ میں نوجوانوں کے ترک وطن جیسے مسائل انتخابی مہم کا موضوع نہیں بنے۔ لیکن دوسرے مرحلے کے لیے ہونے والی مہم میں جہاں لاکھوں شامی پنا گزینوں کو ملک بدر کرنے کے مطالبات شدت اختیار کر رہے ہیں وہیں اب نوجوانوں کو متوجہ کرنے کے لیے دونوں امیدواروں کی کوششیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔