پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے نگران حکومت کے قیام کے لیے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کا نام تجویز کر دیا گیا ہے جب کہ تحلیل کی گئی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے نگران وزیرِ اعظم کے تقرر کے لیے مشاورت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کا نام نگران وزیرِ اعظم کے لیے تجویز کیا ہے۔ صدر عارف علوی کے نام لکھے گئے خط میں وزیر اعظم عمران خان نے آرٹیکل 224 ون اے کے تحت نگرانِ وزیراعظم کے لیے نام کو زیر غور لانے کا مشورہ دیا ہے۔
جسٹس گلزار احمد سپریم کورٹ کے 27 ویں چیف جسٹس تھے جو دو ماہ قبل ہی یکم فروری 2022 کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ دو برس اور ایک ماہ تک اس منصب پر رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔
سوموار کی صبح ہی صدر نے آرٹیکل 224 اے ون کے تحت وزیرِ اعظم عمران خان اور شہباز شریف کو نگران وزیرِ اعظم کی تعیناتی کے لیے موزوں نام تجویز کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔
عارف علوی کے نگران وزیرِ اعظم کی تقرری کے حوالے سے خط پر شہباز شریف نے کہا کہ صدر آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں لہذا وہ اس مشاورت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر اور وزیرِ اعظم نے قانون توڑا ہے اور سوال یہ ہے کہ وہ اپوزیشن سے کیسے رابطہ کر سکتے ہیں۔
شہباز شریف کے جواب پر ردِ عمل دیتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ شہباز شریف نگران وزیرِ اعظم کے تقرر کی مشاورت کا حصہ نہیں بننا چاہتے تو یہ ان کا اختیار ہے، تاہم تحریک انصاف دو نام دے چکی ہے اور سات روز میں ان ناموں میں سے ایک کا انتخاب کر لیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اتوار کو ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے حزبِ اختلاف کی تحریکِ عدم اعتماد کو رائےشمادی سے قبل ہی مسترد کیے جانے کے بعد صدر عارف علوی نے وزیرِ اعظم کی سفارش پر قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔
صدر نے وزیرِ اعظم عمران خان کو نگران وزیرِ اعظم کے تقرر تک کام جاری رکھنے کا کہا تھا۔
آئین کے مطابق وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کو اتفاق رائے سے نگران وزیرِ اعظم کا تقرر کرنا ہوتا ہے اور اتفاق رائے پیدا نہ ہونے کی صورت میں اراکینِ پارلیمنٹ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔
صدر عارف علوی کی جانب سے لکھے گئے خط میں بھی کہا گیا تھا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے تین دن کے اندر کسی ایک نام پراتفاق نہ ہو تو دونوں شخصیات دو دو نام کمیٹی کو بھیجیں گی۔
خط میں مزید کہا گیا کہ وزیرِ اعظم اور اپوزیشن لیڈر نگران وزیرِ اعظم کے لیے کسی ایک نام پر متفق نہ ہونے کی صورت میں اسپیکر قومی اسمبلی آٹھ ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں گے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان شامل ہوں گے۔
یہ کمیٹی تحلیل کی گئی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین پر مشتمل ہو گی۔
جسٹس گلزار احمد کی نامزدگی کی ایلیت پر سوال
سابق اٹارنی جنرل اشتر علی اوصاف کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج اپنے ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد تک کوئی انتظامی عہدہ نہیں سنبھال سکتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جسٹس گلزار احمد کو چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ابھی دو سال کا عرصہ نہیں ہوا ہے لہذا وہ نگران وزیراعظم بننے کے اہل نہیں ہیں
اشتر اوصاف نے کہا کہ ان کی رائے میں جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے تو نگران وزیراعظم کے لئے ایوان صدر کا خط نہیں لکھنا چاہئے۔وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر از خود نوٹس لے رکھا ہے اور اس پر مشاورت یا خط لکھنا عدالت عالیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے جسٹس گلزار احمد کا نام بطور نگران وزیراعظم تجویز کئے جانے پر صدر عارف علوی نے قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف کو ایک اور خط لکھا ہے۔
خط میں شہباز شریف سے کہا گیا ہے کہ نگران وزیراعظم نامزدگی سے اتفاق کریں یا کسی اور مناسب شخص کا نام تجویز کریں۔
ایوان صدر سے جاری بیان کے مطابق قائد حزب اختلاف آئین کے آرٹیکل 224 ایک اے کے تحت 6 اپریل تک اطلاع دیں اور مقررہ وقت میں جواب موصول نہ ہونے پر نگران وزیراعظم کی تقرری آئین کے مطابق کی جاۓ گی۔
شہباز شریف نے پیر کو اسلام آباد میں حزبِ اختلاف کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ صدرِ پاکستان آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں جس نے آئین شکنی کی ہے، اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ان کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں اس لیے وہ نگران وزیرِ اعظم کی تعیناتی کے لیے کسی بھی مشاورت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ پوری دنیا کی نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہے جب تک عمران خان کو آئین شکنی کی قرار واقعی سزا نہیں مل جاتی اس وقت تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری کے بجائے اسے مسترد کرنے کو ماورائے آئین اقدام قرار دیا ہے۔ اپوزیشن اسمبلی کو بحال کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ پہلے سے اس معاملے پر از خود نوٹس لے چکی ہے جس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، اسد محمود اور سردار اختر مینگل کے ہمراہ اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس میں شہباز شریف نے کہا کہ اتوار کو ملک میں سول مارشل لا نافذ کیا گیا ہے۔ عمران نیازی اپنی قانونی اور سیاسی ناکامی برداشت نہ کر سکے اور آئین توڑ دیا۔
سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے ریماکس دیے کہ کوئی ماورائے آئین اقدام نہ کیا جائے لیکن صدر اور وزیرِ اعظم ماورائے آئین اقدام اٹھا چکے تھے۔
انہوں نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے 24 مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت دی اور اگر اس حوالے سے بیرونی سازش یا کوئی اعتراض تھا تو سات مارچ سے 24 مارچ تک کیوں سامنے نہیں لایا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
شہباز شریف نے کہا کہ حکومت امریکہ کے جس سفارت کار ڈونلڈ لو کے متعلق دعویٰ کر رہی تھی کہ کہ سات مارچ کو انہوں نے دھمکی دی تھی اسی ڈونلڈ لو کو 16 مارچ کو پاکستان کے سفیر نے واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے میں دعوت پر بلا کر تعاون پر شکریہ ادا کیا۔ ان کے بقول غیر ملکی سازش کے حوالے سے حکومت کے بیانات اور حقائق میں تضاد ہے۔
پریس کانفرنس میں موجود پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حزبِ اختلاف تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کا خاتمہ چاہتی تھی تاہم حکومت نے ہمارے دباؤ میں آکر خود کشی کر لی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر عمران خان استعفی دیتے تو یہ آئین کے مطابق عمل ہوتا۔ عدم اعتماد پر رائے شماری ہوتی تو یہ جمہوری طریقہ ہوتا مگر وزیرِ اعظم، صدر، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر نے آئین توڑ کر عمران خان کی انا کو تسکین دی۔
سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ فیصلہ کرے کہ آئین کاغذ کا ٹکڑا ہے یا آئین کی پاسداری ہو گی۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے پر فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے جو اس کیس کا فیصلہ کرے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ اگر حزبِ اختلاف بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے تو ہمیں تختہ دار پر چڑھا دیں مگر جمہوریت کا تسلسل چلتا رہنا چاہیے۔