پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف پاکستان کے 23 ویں وزیرِ اعظم منتخب ہو گئے ہیں۔
لاہور میں 23 ستمبر 1951 کو آنکھ کھولنے والے شہباز شریف نے لاہور میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔
اپنے بڑے بھائی اور تین مرتبہ ملک کے وزیرِ اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف کے 1980 کی دہائی میں سیاست میں آنے کے دوران ابتداً شہباز شریف اپنے والد کے کاروبار اتفاق فاؤنڈریز کی دیکھ بھال کرتے رہے۔
لاہور کے کاروباری حلقوں میں نام
شہباز شریف 1985 میں لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر بھی رہے اور 1988 کے عام انتخابات تک اُن کی شہرت ایک کاروباری شخصیت کے طور پر ہی تھی۔ اس دوران ان کے بڑے بھائی نواز شریف ملکی سیاست میں اپنا نام بنا چکے تھےتو شہباز شریف نے بھی انتخابی سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔
سن 1988 کے عام انتخابا ت میں وہ پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور ایک بار پھر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہونے والے اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے ساتھ مل کر اپنے سیاسی سفر کو آگے بڑھایا۔
سن 1990 کے عام انتخابات میں شہباز شریف پہلی مرتبہ لاہور سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تاہم 1993 کے عام انتخابات سے قبل ایک بار پھر پنجاب میں پارٹی کو منظم کرنے کا ٹاسک شہباز شریف کو دیا گیا۔
وہ 1993 کے عام انتخابات میں رُکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور اپوزیشن لیڈر رہے اور اس دوران پارٹی کو پنجاب میں منظم کیا۔
سن 1997 کے عام انتخابات میں شہباز شریف ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور پہلی مرتبہ صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔
جلاوطنی
سن 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تو اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے ہمراہ وہ بھی پابند سلاسل رہے۔
دسمبر 2000 میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک مبینہ معاہدے کے تحت شریف خاندان نے سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کر لی اور یوں نواز شریف اور شہباز شریف چند برسوں تک ملک کے سیاسی منظر نامے سے دُور رہے۔
مبینہ معاہدے کے تحت نواز شریف اور شہباز شریف کو سیاسی سرگرمیوں سے دُور رہنے اور بیان بازی سے گریز کا پابند کیا گیا تھا، تاہم 2003 میں شہباز شریف کو کینسر کے علاج کے لیے خاندان کے ہمراہ امریکہ جانے کی اجازت دی گئی جس کے بعد وہ لندن منتقل ہو گئے۔
بعدازاں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو بھی لندن کا سفر کرنے کی اجازت دے دی گئی اور وہاں اُنہوں نے سیاسی ملاقاتوں کا بھی آغاز کر دیا۔
جنرل پرویز مشرف کا دعویٰ تھا کہ شریف خاندان 10 سال تک سعودی عرب میں رہنے کا معاہدہ کر کے گئے تھے، البتہ شریف خاندان کسی بھی معاہدے کی تردید کرتا رہا۔
وطن واپسی کی کوشش
شہباز شریف نے کسی بھی خفیہ معاہدے کی تردید کرتے ہوئے مئی 2004 میں وطن واپسی کا اعلان کیا۔
شہباز شریف 11 مئی 2004 کو بذریعہ ابوظہبی لندن سے لاہور ایئرپورٹ پہنچے تاہم اُنہیں ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی پی آئی اے کی خصوصی پرواز کے ذریعے دوبارہ جدہ پہنچا دیا گیا۔
سن 2008 کے عام انتخابات سے قبل نومبر 2007 میں نواز شریف اور شہباز شریف کو آخرکار وطن واپسی کی اجازت دے دی گئی اور 25 نومبر 2007 کو دونوں بھائی لاہور ایئرپورٹ پہنچے تو مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے اُن کا بھرپور استقبال کیا۔
ایک بار پھر وزیرِ اعلیٰ
سن 2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت بن کر اُبھری تو پنجاب میں اس نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور مسلم لیگ (ق) کے فارورڈ بلا ک کو ساتھ ملا کر شہباز شریف پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔
دوسری مرتبہ وزیرِ اعلٰی منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف نے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا۔
البتہ فروری 2009 میں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے پنجاب میں گورنر راج لگایا تو شہباز شریف کو وزارتِ اعلٰی سے دست بردار ہونا پڑا۔
مارچ2009 میں سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت بحال کر دی تو شہباز شریف دوبارہ وزارتِ اعلٰی کے منصب پر فائز ہو گئے اور 2018 تک اس منصب پر فائز رہے۔
سن 2013 میں مرکز میں بھی مسلم لیگ (ن) نے حکومت بنائی تو شہباز شریف پھر پنجاب کے وزیرِ اعلٰی بن گئے۔
اپوزیشن لیڈر
سن 2018 کے عام انتخابات کے بعد تحریکِ انصاف قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری تو شہباز شریف نے اپوزیشن لیڈر کا محاذ سنبھال لیا۔
فروری 2022 میں جب متحدہ اپوزیشن نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا عندیہ دیا تو اسی وقت شہباز شریف کا نام بطور وزیرِ اعظم سامنے آیا۔
شہباز شریف کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ کمر کی تکلیف کے باوجود وہ صبح جلد اُٹھنے کے عادی اور رات دیر تک کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
لاہور کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے معائنے کے لیے بھی شہباز شریف صبح سویرے باہر نکلتے رہے ہیں جب کہ برسات میں نکاسیِ آب کا جائزہ لینے کے لیے رات گئے لانگ شوز پہنے پانی میں اُترنے کی اُن کی تصاویر بھی توجہ کا مرکز بنتی رہی ہیں۔
البتہ شہباز شریف کے طرزِ حکمرانی کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ وہ سیاسی مشیروں سے زیادہ بیوروکریسی کو ترجیح دے کر حکومتی نظم و نسق چلانے پر یقین رکھتے ہیں۔