پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں اس وقت جو گرمجوشی ہے اس کی ماضیٔ قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ان خیالات کا اظہار شیخ رشید احمد نے وزیرِ اعظم پاکستان کے ہمراہ دورۂ سعودی عرب کے دوران اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران کیا۔
شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کے ماضیٔ قریب میں دونوں ملکوں کے تعلقات کی جو نوعیت تھی وہ اب بدل گئی ہے اور میں نے جتنی گرمجوشی اس بار دیکھی۔ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
اس سوال کے جواب میں کہ اس اچانک تبدیلی کا سبب کیا ہے۔ مغربی ملکوں کی سعودی عرب کے بارے میں پالیسیاں، یمن کی جنگ کی صورت حال یا کچھ اور؟ شیخ رشید نے کہا کہ مغربی ملکوں کی پالیسیاں کچھ بھی ہوں۔ پاکستان امریکہ سمیت سب مغربی ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے۔ لیکن چین کو کسی صورت نہیں چھوڑا جا سکتا۔
اُں کے بقول چین، پاکستان کا مشکل وقت کا دوست ہے اور یہ ہی صورتِ حال سعودی عرب کے سلسلے میں بھی ہے۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے اس وقت جو جوش اور ولولہ ہے سعودی عرب میں ہے وہ اس سے پہلے اُنہوں نے کبھی نہیں دیکھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سوال کے جواب میں کہ سعودی عرب سے زیادہ قربت کی صورت میں کیا ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایران جانتا ہے کہ پاکستان سے سعودی عرب کے تعلقات کی بنیاد ایران کی مخالفت پر نہیں ہے۔
کیا سعودی عرب سی پیک میں شامل ہو گا؟
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کی سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کرنے کی کوششوں میں کیا پیش رفت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ چین اس پورے علاقے کو سی پیک کے دائرہ کار میں لانا چاہتا ہے اور ہم نے تو بھارت کو بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔
پاکستان کے اندر ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید نے کہا کہ کابل کے امن سے پاکستان کا امن وابستہ ہے۔ جب بھی کابل میں انتشار ہو گا پاکستان اس سے متاثر ہو گا۔
بھارت کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی ہو رہی ہے؟
بھارت کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ جب سے وہ سیاست میں آئے ہیں انہوں نے کبھی بیک ڈور ڈپلومیسی کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھا ہر چند کہ ایک مرحلے پر وہ خود بھی اس کا حصہ رہے ہیں۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اب کشمیری ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اب وہ کسی کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں۔
اپوزیشن کے بارے میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ خود اب تقسیم ہو رہی ہے۔
ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ایک جماعت پر پہلے ہی پابندی لگا چکے ہیں۔ لہذٰا مذہبی انتہا پسندی کو ملک میں بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے یا کسی عبوری حکومت میں ان کا غلبہ ہونے کی صورت میں پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں کو شہ ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ایسا ہو گا۔