حکومتِ پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے 49 مجوزہ تبدیلیوں کی تفصیلات جاری کی ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے حزبِ اختلاف کو انتخابی اصلاحات پر بات چیت کی دعوت بھی دی ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتیں حکومتی پیش کش کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ حکومت نے بل کی تیاری میں انہیں مکمل طور پر نظرانداز کیے رکھا اور وہ حکومت سے اس بارے میں بات کرنا نہیں چاہتے۔
تاہم تجزیہ کار کہتے ہیں انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن کو حکومت سے بات کرنی چاہیے۔
انتخابی عمل کی نگرانی پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'فافن' کے سربراہ مدثر رضوی کہتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات بل میں لگ بھگ 100 ترامیم شامل ہیں اور حکومت کی جانب سے کئی اہم ترامیم کو بل کا حصہ بنایا گیا ہے اس لیے اس پر بات کرنا اسی وقت ممکن ہوگا جب تمام اپوزیشن اور حکومتی جماعتیں مل کر اس پر غور کریں گی۔ کیوں کہ ان کے بقول تمام جماعتوں کو موجودہ انتخابی نظام پر اعتراضات ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مدثر رضوی نے کہا کہ اپوزیشن کو یہ اعتراض ہے کہ انہیں اس بل کی تیاری میں شامل نہیں کیا گیا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس بل کا ابھی ڈرافٹ سامنے آیا ہے اور اب بھی تجاویز دی جا سکتی ہیں۔
انتخابی اصلاحات بل میں حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو اہمیت دے رہی ہے جس کا مؤقف ہے کہ انتخابی اصلاحات نہ لانے سے سیاسی اور جمہوری ترقی رک جائے گی۔ لیکن اس پر اب تک اپوزیشن متفق نہیں۔
حکومت انتخابی اصلاحات کا یہ بل قومی اسمبلی میں بھی پیش کر چکی ہے جس کے مطابق 49 مجوزہ تبدیلیوں سے ملک میں جمہوری عمل کی شفافیت میں اضافہ ہو گا۔
لیکن حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ آئین پر عمل کریں تو انتخابی اصلاحات کی ضرورت نہیں۔
پاکستان کی سیاست میں انتخابی اصلاحات پر بحث ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کو کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی غیر متوقع کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے ایک مرتبہ پھر دھاندلی کا الزام عائد کیا اور الیکشن کمیشن میں دوبارہ گنتی کی درخواست جمع کرائی جہاں ان کی یہ درخواست منظور ہو چکی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے فروغ سے متعلق تھنک ٹینک پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مجوزہ انتخابی اصلاحات بل پر بات چیت پارلیمنٹ یا پارلیمانی کمیٹی میں ہونی چاہیے الیکشن کمیشن میں نہیں۔ لیکن ان کے بقول اصلاحاتی عمل میں الیکشن کمیشن کے نمائندے کو رائے دینے کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔
اپنے ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر الیکشن کمیشن کو ہی دیکھنا چاہیے نہ کہ حکومت کو۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ذمہ داریوں کے اعتبار سے کام کی تفریق کا لازمی احترام کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ کراچی کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے دھاندلی کے الزام کے بعد وفاقی وریزِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے پیر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ کراچی کے انتخاب میں بھی دھاندلی کا شور مچا ہوا ہے اس لیے انتخابی اصلاحات ضروری ہیں۔ ان کے بقول وہ ایسا الیکشن چاہتے ہیں جہاں نتیجہ ہر جماعت کو قبول ہو۔
ان کے بقول "ہم الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے نظام میں موجود خرابیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں تاکہ انتخابی عمل میں بہتری آ سکے۔ وزیرِ اعظم نے خود اپوزیشن کو دعوت دی تھی کہ وہ انتخابی اصلاحات کے معاملے پر سامنے آئیں۔"
لیکن شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین مسائل کا حل نہیں، اس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے، کاغذی نظام کو مضبوط کریں جو ملک کاغذی نظام نہ چلا سکے وہ الیکٹرانک نظام بھی نہیں چلا سکتا۔ ان کے بقول ملک کو کسی انتخابی اصلاحات کی ضرورت نہیں بلکہ ملک کو آئین کے مطابق چلائیں اور الیکشن میں دھاندلی چھوڑ دیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین لانا حکومت اور پارلیمان کا کام نہیں بلکہ الیکٹرانک نظام بنانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔
انتخابی اصلاحات کے لیے پیش کردہ بل پر اپوزیشن کی طرف سے بارہا حکومت کی مذاکرات کی پیش کش کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی روکنے کے لیے سب سے اہم اور بنیادی نکتہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے اور اگر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا فعال کردار ہے تو چاہے جتنی بھی قانون سازی کر لی جائے، انتخابات متنازع ہی رہیں گے۔
ان کے بقول اگر اسٹیشلشمنٹ کو انتخابات سے دور رکھا جائے اور وہ غیر جانبدار ہو تو پھر انتخابی اصلاحات کا بھی فائدہ ہو گا اور الیکشن میں دھاندلی بھی کم ہو گی۔
تمام جماعتیں مل کر ہی اصلاحات لاسکتی ہیں، فافن
فافن کے سربراہ مدثر رضوی کہتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات کا بل اسمبلی میں صرف پیش ہوا اور اس کے بعد اسے متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات ہونے کے باعث اب تک مزید کوئی بات نہیں ہوسکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی عمل پر تمام جماعتوں کے اعتراضات گاہے بگاہے آتے رہے ہیں لیکن اس بار اپوزیشن کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنی تجاویز لے کر آئے اور اس عمل کو بہتر بنائے۔
مدثر رضوی کے مطابق انتخابی اصلاحات بل میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن پر بات کرنا بہت ضروری ہے جس میں ووٹوں کی بنیاد پر نمائندگی کے معاملے کو حل کیا جانا اہم ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ عام انتخابات میں ٹی ایل پی نے 21 لاکھ ووٹ حاصل کیے لیکن قومی اسمبلی میں کوئی نشست نہ جیت سکے۔ اس کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام نے 26 لاکھ ووٹ لے کر 11 نشستیں حاصل کیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنی عوام نے انہیں نمائندگی دی اس حساب سے وہ ایوان میں نہ آسکے۔
انتخابی اصلاحات بل کے اہم نکات
حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں جو بل پیش کیا گیا ہے اس میں آبادی کی بنیاد پر نئی حد بندی، پولنگ عملے کا تقرر، 60 دن میں حلف نہ اٹھانے پر دوبارہ انتخاب، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق، الیکٹرانک ووٹنگ، سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سمیت دیگر اصلاحات شامل ہیں۔
حکومت الیکٹرانک ووٹنگ کو بہت اہمیت دے رہی ہے لیکن اس پر اب تک اپوزیشن متفق نہیں۔ کیوں کہ بعض افراد کے مطابق آر ٹی ایس سسٹم کی طرح اس سسٹم میں بھی بدعنوانی اور نتائج تبدیل کرنے کے معاملے کے انسداد کے لیے اب تک کوئی واضح طریقہ کار نہیں دیا گیا۔
مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ انتخابی فہرستیں وہی بتائی جائیں جیسا کہ نادرا کے اندراج کے شناختی اعداد و شمار ہیں، اس طرح تمام شناختی کارڈ رکھنے والے ووٹر بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
بل میں حلقے کے باہر سے افسران اور عملے کے پولنگ کے درمیان تقرر کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے اور اس تقرر کے 15 دن میں اسے چیلنج کرنے کی اجازت بھی دی جانا بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ امیدوار کی طرف سے نامزدگی فیس میں اضافے کی بھی تجویز ہے تاکہ شوقیہ امیدواروں کی تعداد کم کی جاسکے۔
ایک اہم معاملہ انتخاب کے بعد حلف اٹھانے کا بھی ہے جس کے مطابق اگر نشست پر منتخب امیدوار 60 دن کے اندر حلف نہیں اٹھاتا تو نشست خالی کر دی جائے گی اور نیا انتخاب ہو گا۔ اس شق کا شکار حالیہ عرصے میں سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار اور سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار بن سکتے ہیں جنہوں نے اب تک اپنی نشستوں کا حلف نہیں اٹھایا۔