شہباز شریف سے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر کی ملاقات؛ 'تعلقات بہتر ہوں گے تو تجارت بھی بڑھے گی'

بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے بدھ کو وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تھی۔

امریکہ میں ہونے والی ملاقات میں شہباز شریف نے محمد یونس کا دورۂ پاکستان کی دعوت دی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار اور تاجر برادری دونوں رہنماؤں کی ملاقات کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔

ملاقات کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔

پاکستان کی تاجر برادری یہ سمجھتی ہے کہ ملکوں کے درمیان تجارت یرغمال نہیں ہونی چاہیے: مجید عزیز سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس

لاہور -- پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیشی کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران ملاقات کو دونوں ممالک میں اہمیت دی جا رہی ہے۔

شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف نے محمد یونس کو اقتدار سنبھالنے کے بعد مبارکباد بھی دی تھی۔

بدھ کو نیویارک میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران شہباز شریف نے محمد یونس کو دورۂ پاکستان کی بھی دعوت دی ہے۔

ملاقات کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم نے بنگلہ دیش اور پاکستان کی مشترکہ تاریخ، ثقافت اور دیگر اُمور پر بھی گفتگو کی۔

'پاکستان میں بنگلہ دیش کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش موجود ہے'

سیاسی تجزیہ ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ پاکستان میں بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش موجود ہے۔ لیکن بنگلہ دیش میں کچھ حلقے 50 سال قبل ہونے والے واقعات کو بھولنے پر تیار نہیں ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران جان بوجھ کر پرانی تلخیوں کو دوبارہ اُجاگر کیا گیا اور 1971 میں مبینہ طور پر پاکستان کا ساتھ دینے والے افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا اور پھانسیاں دی گئیں۔ اِس کے باوجود بھی پاکستان نے کبھی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ نہیں کیا اور خاموشی اختیار کی۔

اُن کا کہنا تھا کہ اب جو بنگلہ دیش میں حکومت آئی ہے اُس میں ایسے لوگ ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں۔

رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا کے دور میں بھی بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات بہتر تھے۔

تجارت کے فروغ کی اُمید

پاکستان کا کاروباری اور تجارتی طبقہ بھی سمجھتا ہے کہ دونوں ملکوں میں صنعت کاروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون کو فروغ ملے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر مجید عزیز سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو بنگلہ دیش سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاجر برادری یہ سمجھتی ہے کہ ملکوں کے درمیان تجارت یرغمال نہیں ہونی چاہیے۔ جیسا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کی صورتِ حال ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ پاکستان کو اچھا نہیں سمجھتی تھیں اور اُن کے دور میں پاکستان کے حوالے سے نفرت کا ماحول تھا۔ لیکن اب بدلتی ہوئی صورتِ حال سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اب بنگلہ دیش کے لوگوں میں پاکستان سے بہتر تعلقات کے چھپے ہوئے جذبات باہر آ رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی ملاقات کے بعد جتنا جلدی ہو سکے کاروباری برادری اور تاجروں کو متحرک ہو جانا چاہیے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں بہت سے پاکستانی صنعت کاروں نے بنگلہ دیش میں کارخانے لگائے لیکن ماسوائے دو کہ وہ آہستہ آہستہ بند ہو گئے۔

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر کاشف انور سمجھتے ہیں کہ اُن کا شروع سے یہی مؤقف رہا ہے کہ سارک ممالک کے ساتھ تجارت ہونی چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ رواں سال بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے دورے کے دوران کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کی وسیع گنجائش ہے۔

بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ افراطِ زر، عالمی اقتصادی عوامل اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم ایک ارب ڈالر تک محدود ہے۔

مجید عزیز کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان فنانشل ٹریڈ ایگریمنٹ ہونا چاہیے جس سے دونوں ملکوں کے تاجروں اور صنعت کاروں کو تو فائدہ ہو گا ہی ساتھ میں دونوں ملکوں کی عوام کو بھی فائدہ ہو گا۔

کاشف انور سمجھتے ہیں کہ صنعت کار دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان تیار شدہ یا بنی بنائی اشیا بنگلہ دیش سے منگواتا ہے تو ایکسپورٹ پالیسی کے تحت ایسا مشکل ہو گا۔ لیکن خام مال منگوایا جا سکتا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بڑھے گی۔

کن کن شعبوں میں تجارت ہو سکی ہے؟

مجید عزیز کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بہت سے شعبوں میں تجارت ہو سکتی ہے جس میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات سرِ فہرست ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِسی طرح پاکستان انجینئرنگ کا سامان بنگلہ دیش بھجوا سکتا ہے۔

اِسی طرح پاکستان نمک اور سیمنٹ بنگلہ دیش بھیج سکتا ہے۔ ماضی میں بنگلہ دیش پاکستان سے سیمنٹ خریدتا بھی رہا ہے۔ لیکن اضافی ٹیکس شرح کے باعث بنگلہ دیش نے پاکستانی سیمیٹ خریدنا چھوڑ دیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مصنوعات بھی بنگلہ دیش کو فروخت کر سکتا ہے۔

اِسی طرح پاکستان فشریز کے شعبے میں بنگلہ دیش سے کافی کچھ سیکھ سکتا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بڑھ سکتی ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح پاکستان بنگلہ دیش سے چائے کی پتی اور پان درآمد کر سکتا ہے۔

مجید عزیز کے خیال میں دونوں ممالک پھلوں کی تجارت بھی کر سکتے ہیں۔ اِس وقت ملبوسات کی صنعت میں بنگلہ دیش دنیا بھر میں اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے جس سے وہاں کے لوگ بہت زیادہ ماہر ہو گئے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ اُن ماہر لوگوں کو یہاں بلا کر پاکستان کی ملبوسات کی صنعت میں لوگوں کو تربیت دلوائی جائے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مالی سال 2024 کے ابتدائی مہینوں میں بنگلہ دیش کے لیے برآمدات 52 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے گھٹ کر 42 کروڑ 19 لاکھ ڈالر ہو گئی ہیں۔ اِسی طرح درآمدات میں بھی 27 فی صد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔