پاکستانی فلمساز شرمین عبید چنوئے نے تیزاب کے حملوں کا شکار افراد پر بنائی گئی اپنی دستاویزی فلم ’سیونگ فیس‘ پر آسکر ایوارڈ جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کر لی ہے کیونکہ اس سے قبل پاکستان کے کسی ہدایتکار کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا۔
لاس اینجلس میں اتوار کی شام اکیڈمی ایوارڈ کی شاندار رنگا رنگ تقریب میں آسکر کا اعزاز قبول کرتے ہوئے اپنی تقریر میں شرمین نے اسے پاکستانی خواتین کے نام وقف کر دیا۔
’’پاکستان کی تمام خواتین جو تبدیلی کے لیے جد و جہد کر رہی ہیں، وہ خواب دیکھنا کبھی مت چھوڑیں، یہ (ایوارڈ) آپ کے لیے ہے۔‘‘
آسکر کی تقریب سے قبل وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں شرمین نے کہا تھا کہ ان کی دستاویزی فلم کو ملنے والی نامزدگی نہ صرف ان کے لیے ذاتی طور پر بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔
’’جب پتا چلا کہ آسکر کے لیے نامزد ہوئے ہیں تو بہت خوشی ہوئی پوری ٹیم کو کیونکہ فلم کوئی اکیلا تو بناتا نہیں مگر سب سے زیادہ یہ فخر محسوس ہوا کہ آپ کہیں بھی ہوں، کہیں بھی پلے بڑھے ہوں، کہیں پر بھی کام کر رہے ہیں مگر آپ اچھا کوالٹی کام آگے بڑھائیں گے تو لوگ سراہیں گے اور بین الاقوامی سطح پر آپ کو ایوارڈز ملیں گے۔‘‘
دستاویزی فلم کا مختصر خاکہ اور اسے بنانے کے محرکات کا ذکر کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اس کا خیال اُن کے ساتھی ڈائریکٹر ڈینیئل ینگ کے ذہن میں آیا تھا جنھوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر محمد جواد کی زندگی اور پاکستان آکر تیزاب کے حملوں کا شکار ہونے والی خواتین کے علاج کی داستان کو عکس بند کیا جائے۔
’’میں نے یہ پراجیکٹ دیکھ کر بولا کہ یہ بہت اہم ہے۔ ایک عورت پر ایک دفعہ تیزاب پھینک دیں تو وہ ساری عمر اس کو بھگتتی ہے۔ ڈیڑھ سال لگائے ہیں ہم نے اس فلم پر ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ آسکر تک پہنچے گی لیکن اُمید تھی کہ اگر ہم اچھا کام کریں گے تو لوگ بین الاقوامی سطح پر سراہیں گے۔‘‘
نامور پاکستانی اداکار و ہدایتکار نعیم طاہر نے وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شرمین کے کارنامے سے دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستانی خواتین کس قدر ذہین اور باصلاحیت ہیں۔
’’شرمین نے دوسرے لوگوں کی طرح پاکستان کے معاشرے کی بدصورتی بیچ کے شہرت کمانے کی کوشش نہیں کی بلکہ امید کی کرن دکھائی ہے۔ تو اچھا پہلو اس کام کا یہ ہے کہ پاکستان کو بدنام نہیں کیا گیا بلکہ پاکستان میں جو ذی شعور لوگ ہیں ان کے کام کو سامنے لایا گیا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ آسکر ایورڈ جیت کر شرمین نے یقینا دیگر نوجوان پاکستانیوں میں اس شعبے میں ایسے ہی کارنامے سرانجام دینے کی ہمت پیدا کردی ہے۔
’’اب دیکھیے شرمین کہیں سے تربیت یافتہ نہیں ہیں انھوں نے اپنی جستجو سے کیا ہے اس لیے راستہ سب کے لیے کھلا ہے اور شرمین کے ایوارڈ لینے سے اور شرمین پہلے ایمی ایوارڈ بھی لے چکی ہیں تو یہ ذرا زیادہ مشہور ایوارڈ ہے تو دنیا کی زیادہ توجہ اس پر آئے گی۔ مجھے یقین ہے کہ بہت سے لڑکے لڑکیوں کو نوجوانوں کو بزرگوں کو میرے جیسے پرانے لوگوں کو پھر خیال آئے گا کہ بہت سا اچھا کام کیا جاسکتا ہے اور دنیا اس کو پہچاننے کے لیے آمادہ ہے۔‘‘
افغانستان اور ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو کے بعد پاکستان دنیا میں خواتین کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے جہاں ہر سال 100 سے زائد افراد پر تیزاب پھینک کر اُن کے چہروں کو مسخ کر دیا جاتا ہے۔
خاندانی غیرت جیسی دیگر دقیانوسی روایات کے نام پر کیے جانے والےان حملوں کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت خواتین اور لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسے جرائم پر دیگر موضوعات کے مقابلے میں بہت کم کھل کر بحث ہوتی ہے۔
شرمین کے بقول ان کی دستاویزی فلم میں جن خواتین نے حصہ لیا ہے وہ اپنی آواز کے ذریعے لوگوں کی توجہ اس جرم کی طرف مبذول کروانا چاہتی تھیں۔
دستاویزی فلم میں ایک لڑکی اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ 13 سال کی تھی جب اسکول میں اُس نے اپنے اُستاد کو دست درازی کرنے سے روکا اور جس کی پاداش میں بعد میں اُس پر تیزاب پھینک دیا گیا۔
25 سالہ رخسانہ بھی فلم میں اپنی دکھ بھری داستان سناتے ہوئے کہتی ہے کہ اُس کے شوہر نے اُس پر تیزاب پھینکا اور اُس کی نند نے اُس پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔
صابرہ بی بی بھی تیزاب سے کیے گئے حملوں کا شکار ہونے والی سینکڑوں پاکستانی خواتین میں شامل ہیں، اور وہ محض 15 برس کی عمر میں اس اذیت سے گزریں۔
لیکن اُن کی خوش قسمتی کہ ڈاکٹر محمد جواد نے دو مرتبہ پلاسٹک سرجری کرکے اُن کے چہرے پر آئے زخموں کو کسی حد تک کم کر دیا ہے، اور اب وہ لاہور میں اپنی جیسی خواتین کی مفت پلاسٹک سرجری سے متعلق غیر سرکاری تنظیم اسمائل اگین یعنی ’دوبارہ مسکراؤ‘ میں نوکری کر رہی ہیں۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’شرمین نے جو کچھ کیا ہے اُس سے میری جیسی کئی مظلوم خواتین کا درد کم ہوا ہے ،اور اُمید ہے کہ اس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ایسے جرائم کی حوصلہ شکنی میں مدد ملے گی۔‘‘
اسمائل اگین کی سربراہ اور نامور میک اپ آرٹسٹ مسرت مصباح کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں خواتین کو حقوق کی فراہمی اور اُن پر ظلم کی روک تھام سے متعلق کی گئی قانون سازی بلا شبہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔
’’شرمین کو آسکر ایوارڈ ملنے سے (پاکستان میں) متعلقہ حکام پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ ان قوانین پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائیں۔‘‘
پاکستانی پارلیمان میں تیزاب کے حملوں میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزائیں دینے کا ایک قانون گزشتہ سال منظور کیا گیا تھا جس کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے خاصی پذیرائی کی۔
نئے قانون کے تحت تیزاب پھینکنے کے جرم کے مرتکب افراد کو کم از کم 14 سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا دی جا سکے گی ۔ جبکہ مجرم کو 10 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔
اس جرم کے خلاف سرگرم عمل تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2009ء کے دوران 53 افراد پر تیزاب پھینکنے کے واقعات پیش آئے تھے، لیکن 2011ء میں ان کی تعداد بڑھ کر 150 ہو گئی۔
شرمین متعدد دستاویزی فلمیں (ڈاکیومنٹریز) بنا چکی ہیں اور 2010ء میں ان کی فلم ’’پاکستان: چلڈرن آف دی طالبان‘‘ ایمی ایوارڈ حاصل کر چکی ہے۔
وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے شرمین عبید چنوئے کو پاکستان کے لیے پہلا آسکر ایوارڈ جیتنے پر اُنھیں ملک کا اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔
شرمین عبید چنوئے کا فن و ثقافت کے شعبے میں پاکستان کا نام روشن کرنا اُن کے اہل خانہ کے لیے بھی فخر کا باعث بنا ہے، جس کا اظہار اُنھوں نے پیر کو کراچی میں ایک نیوز کانفرنس میں کیا۔
شرمین کی والدہ صبا عبید کا کہنا تھا کہ اُن کی بیٹی کا کارنامہ یقیناً پاکستانی خواتین کے مسائل کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
’’(آنے والے دنوں میں) پاکستان ایسا ملک ہو گا جہاں خواتین پر تیزاب پھینک کر اُن کے چہروں کو مسخ نہیں کیا جا سکے گا۔‘‘