|
پاکستان کے صوبے سندھ کی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ میرپورخاص میں توہینِ مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
جمعرات کو کراچی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ سندھ ضیاء لنجار کا کہنا تھا کہ اس واقعے پر متعلقہ سینئر پولیس افسر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے پولیس کی ساکھ خراب ہوئی۔ انکوائری کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ مقتول ڈاکٹر شاہ نواز کا خاندان ہی ایف آئی آر درج کروائے۔
عمر کوٹ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں تعینات سرکاری ڈاکٹر شاہ نواز پر الزام تھا کہ اُنہوں نے نے پیغمبرِ اسلام کے یومِ ولادت کے روز ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے توہینِ مذہب کی تھی۔
واقعے کے بعد عمر کوٹ میں سینکڑوں افراد نے مظاہرہ کیا اور ملزم کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔
اس دوران شہر میں ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے بھی واقعات ہوئے تھے۔ ہجوم نے ملزم کے گھیراؤ کی بھی کوشش کی جس سے وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور ہوٹل میں جا کر چھپ گئے تھے۔
ملزم کے خلاف پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ملزم نے اپنے ساتھی کی مدد سے پولیس پر فائرنگ کی تاہم پولیس کی جوابی فائرنگ سے ملزم موقع پر ہی مارا گیا۔
'خاندان نہ مانا تو سرکار کی مدعیت میں ایف آئی آر ہو گی'
وزیرِ داخلہ سندھ کے بقول سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایک جرم کی ایک ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے اس لیے حکومت کی کوشش ہے کہ ان کا خاندان ایف آئی آر درج کروائے اور وہ جسے چاہے نامزد کر سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر خاندان ایف آئی آر درج نہیں کرواتا تو سرکار کی مدعیت میں ایف آئی آر درج ہو گی۔
ضیاء لنجار کے مطابق اس بات کی بھی انکوائری کی جا رہی ہے کہ مقتول ڈاکٹر شاہنواز نے کیا توہین کی تھی؟
'پرانی آئی ڈی سے مواد شیئر کیا گیا'
ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کی سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ جس آئی ڈی سے مواد شئیر کیا گیا ہے وہ ان کی پرانی آئی ڈی ہے جو اب وہ بالکل استعمال نہیں کرتے۔ بلکہ وہ فیس بک بھی اب استعمال نہیں کرتے۔ ملزم کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کو اپنی تفتیش مکمل کرنے دی جائے۔