پاکستان کے صوبہ سندھ میں اب اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کے مقدمات بھی انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت درج کیے جائیں گے۔ اس بات کا فیصلہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت ہونے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا ہے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ انسداد دہشتگردی قوانین میں ترمیم کی جائے گی اور ایسے اسٹریٹ کرائمز جس میں اسلحہ استعمال کیا گیا ہو، ان مقدمات میں انسداد دہشت گردی قوانین کا اطلاق کیا جائے گا اور ملزمان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت کیس درج ہو گا۔ صوبائی مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد شہریوں کی جان ومال کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔
اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ رواں سال کراچی میں گیارہ سو گاڑیاں چھینی گئیں۔ رواں سال کے گیارہ ماہ میں 14 ہزار سے زائد موبائل فونز شہریوں سے چھین لئے گئے۔ 2018 میں اگرچہ جرائم کی شرح میں کمی تو آئی ہے لیکن یہ تعداد اب بھی کافی زیادہ ہے۔ اور کراچی کے شہری اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کے شکنجے میں ہیں۔
حکام کے مطابق رواں سال اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں 13 ہزار سے زائد ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ لیکن ان میں سے بہت سے ملزمان رہا ہوگئے اور کئی ایسے بھی سامنے آئے ہیں جو دو یا دو سے بھی زیادہ بار اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں گرفتار ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق ملزمان کو قرار واقعی سزائیں دلوانے اور بڑھتے جرائم کی سرکوبی کے لیے قوانین میں مناسب ترامیم کی جارہی ہیں۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ کراچی کو محفوظ شہر بنانے کے لئے سیف سٹی پروجیکٹ شروع کیا جائیگا جس کے پہلے مرحلے میں شہر کے ریڈزون اور اہم سڑکوں پر ہائی ٹیک کیمرے نصب کیے جائیں گے۔
اس وقت شہر میں محض 2300 کیمرے نصب ہیں جن میں سے زیادہ تر صرف 6 میگا پکسل کے ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر خراب ہیں۔ مشیر اطلاعات سندھ کا کہنا ہے کہ جدید کیمروں کی تنصیب سے جرائم کی شرح پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
ایپکس کمیٹی نے اس بات کا بھی فیصلہ کیا کہ سندھ بلوچستان بارڈر پر سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں میں اضافہ کیا جائیگا۔ عادی مجرموں کے کیس میں فوری اپیل دائر کی جائے گی تاکہ ان کی رہائی کے عمل کو جس قدر ممکن ہو روکا جاسکے۔
یاد رہے کہ ایپکس کمیٹی 2015 میں قائم کی گئی تھیں- جن کا مقصد نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لئے سول اور عسکری لیڈرشپ کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا تھا۔ چاروں صوبوں میں قائم ایپکس کمیٹیوں میں صوبائی وزرائے اعلٰی کے علاوہ سول اور عسکری قیادت شامل ہے۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کے مقدمات کو انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت چلانے سے ان خصوصی عدالتوں پر دباو بڑھے گا۔ سیٹیزن پولیس لیژان کمیٹی کے سابق سربراہ جمیل یوسف کے مطابق انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں پہلے ہی مقدمات کے دباو کا شکار ہیں۔ اسٹریٹ کرائمز کے مقدمات بھی یہاں منتقل کرنے سے قبل انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کی تعداد، ججز اور وکلاء کی تعداد کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون شہادت میں مناسب ترامیم کی بھی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ قانونی معاملات کے ساتھ معاشرتی مسائل پر قابو پائے بغیر ایسے جرائم سے چھٹکارا مشکل ہے۔