پہلے شناخت، پھر ووٹ کا حق اور اب ملازمتیں

حکومتِ سندھ کی جانب سے، تین خواجہ سراوٴں کو نوکریاں دینے کے اس فیصلے کےبعد، خواجہ سرا کمیونٹی کو اپنے مستقبل کے بارے میں کافی امید بندھی ہے
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سرکاری سطح پر تین خواجہ سراوٴں کو ملازمتیں دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے کراچی سے تعلق رکھنے والے تین خواجہ سراوٴں کو ان کی میرٹ کی بنیاد پر محکمہٴسماجی بہبود میں سرکاری ملازمتیں دی گئی ہیں۔

گزشتہ روز سندھ کی صوبائی وزیر سماجی بہبود، روبینہ قائمخانی نے تینوں خواجہ سراوٴں کو ملازمتوں کے باقاعدہ تقررنامے جاری کئے ہیں۔ روبینہ قائمخانی کا کہنا ہے کہ ’ابتدائی مرحلے میں تین خواجہ سراؤں کو نوکریاں فراہم کی گئی ہیں، جبکہ دیگر خواجہ سراؤں کو بھی جلد ملازمتیں دی جائیں گی‘۔

سندھ حکومت میں ملازمت پانے پر، خواجہ سرا مظہر انجم عرف انجو نے ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ ’سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری نوکری ملنا ایک خوش آئند بات ہے، سماجی بہبود کے ادارے میں خواجہ سراوٴں کیلئے بنیادی سہولیات کی فراہمی اور حقوق کیلئے کام کئے جائیں گے‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ، ’اس حکومتی فیصلے سے دیگر خواجہ سراوٴں کو اپنے مستقبل کے بارے میں کافی امید بھی بندھی ہے‘۔
۔
کراچی میں خواجہ سراوٴں کی غیر سرکاری فلاحی تنظیم کی سربراہ بندیا رانا خواجہ سراوں کیلئے کئے گئے اس اقدام کے حوالے سے کہتی ہیں کہ، ’خواجہ سراوں کو نوکریاں عارضی بنیادوں ہر نہ دیجائیں، بلکہ مستقل بنیادوں پر ہوں تو اچھا ہے۔ خواجہ سرا مختلف شعبوں میں نوکریاں کرسکتے ہیں، اگر انھیں شعبوں کے حساب سے ٹریننگ دےکر نوکریاں دیجائیں، تو خواجہ سرا ہر شعبے میں کام کرسکتے ہیں۔

بندیا نے بتایا کہ ملک میں پڑھے لکھے خواجہ سراوٴں کی تعداد انتہائی کم ہے، بقول ان کے، سندھ میں موجود سترہ ہزارخواجہ سراوں میں سے صرف ایک ہزار خواجہ سرا خواندہ ہیں ان میں ڈبل ماسٹرز، ڈاکٹر اورانجیئرنگ ڈگری ہولڈر بھی ہیں، مگر ان کو آج تک میرٹ کی بنیاد پر نوکریاں نہیں مل پائیں۔

حکومتی اداروں کے علاوہ نجی اداروں میں خواجہ سراوٴں کے کام اور نوکریوں کے حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ نجی اداروں میں کئی بار پڑھے لکھے خواجہ سراوں نے نوکریوں کے لئے درخواستیں دیں، مگر، بقول اُن کے، ’معاشرہ ہمیں مکمل طور پر قبول نہیں کرتا۔ لوگ میرٹ کو نہیں ظاہری خدوخال کو بہانہ بناکر انکار کر دیتے ہیں‘۔

واضح رہے کہ خواجہ سرا، یعنی شی میل، تیسری جنس کہلانے والے افراد کو معاشرے کا سب سے نچلا طبقہ تصور کیاجاتا ہے،جنھیں بنیادی سہولتوں سمیت نوکریوں کے حصول میں بھی دشواریوں کو سامنا رہا ہے۔ ملک بھر میں خواجہ سراوٴں کی تعداد 5 لاکھ کے لگ بھگ ہیں، جن میں صوبہٴ سندھ میں 17 ہزار اور صرف کراچی میں 9 سے دس ہزار خواجہ سرا ہیں، جو گزشتہ کئی سالوں سے حکومتی عدم توجہ کے باعث معاشرے کے سب سے نچلے طبقے کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔

گزشتہ چند برس قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد خواجہ سراوں کو پاکستانی شہری ہونے کی شناخت ملی، جبکہ گزشتہ انتتخابات میں پہلی بار ووٹ ڈالنے کا حق اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہوا۔ گزشتہ روز، خواجہ سراوں کو سرکاری شعبے میں نوکریوں کی فراہمی کے بعد، اب خواجہ سرا سرکاری اداروں میں کام کرسکیں گے۔

نوکریوں کے حصول کے بعد، خواجہ سراوٴں کو بھی معاشرے میں برابری کا حق حاصل ہو سکے گا، جو ان جیسے تمام خواجہ سراوٴں سمیت معاشرے کیلئے ایک مثبت پیغام ہے۔