رسائی کے لنکس

درد کے مسکراتے چہرے


درد کے مسکراتے چہرے
درد کے مسکراتے چہرے

گزشتہ کچھ سالوں سے کراچی کے چوراہوں پر خواجہ سراوٴں کے میلے لگنے لگے ہیں۔ سگنل پر گاڑی رکی نہیں کہ مخصوص حلئے میں ملبوس اور اپنے ہی انداز سے بھیک مانگتے ہوئے خواجہ سراوٴں کو ٹولہ آدھمکاتا ہے۔ کسی نے بھیک دی کسی نے نہیں مگر یہ سب کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں چھوڑتے۔ جواب میں کچھ لوگ حقارت سے دیکھتے ہیں تو کچھ بری طرح ڈانٹ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

یوں بھی معاشرے میں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں کو کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ گزشتہ صدی کی بات ہے یہ لوگ شادی بیاہ کی محفلوں سے ولادت کی تقریبات تک ہر جگہ ناچتے گاتے نظر آتے تھے اور یہی ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہواکرتا تھا۔ مگر جیسے جیسے زمانے نے کروٹ بدلی ان کی آمدنی گھٹتی چلی گئی۔ لوگوں نے تقریبات میں انہیں مدعو کرنا چھوڑ دیا بلکہ جس تقریب میں یہ لوگ بن بلائے چلے آتے تھے وہاں سے انہیں بے عزت کرکے نکالا جانے لگا۔ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ بھوکوں مرنے لگے۔ مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق ان لوگوں نے چھوٹے علاقوں سے ہجرت کی اور کراچی و لاہور جیسے بڑے شہروں میں آبسے۔ یہاں آکر اب یہ لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔

کراچی شہر میں ان کی اکثریت اب ضیاء الدین اسپتال کے پاس واقع کوثر نیازی کالونی، اورنگی ٹاوٴن، نیو کراچی، پاپوش نگر، شاہ فیصل کالونی، محمود آباد اوردیگر علاقوں میں آباد ہے۔ ان سے ہمدردی رکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اب جب سے انہوں نے چوراہوں پر ڈیرے ڈالے ہیں، ان کے خلاف حقارت میں بھی مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کے بارے میں عموماً سب سے پہلے یہی سوال کیا جا تا ہے کہ یہ لوگ کام کیوں نہیں کرتے۔

اورنگی ٹاوٴن کے ایک بوسیدہ سے مکان میں رہائش پذیراور ریما کے نام سے پہچان بنانے والی 'فنکارہ' نے اسی سوال کے جواب میں بتایا، " ہمیں کام کون دیتا ہے، سب ہم پر ہنسنا جانتے ہیں۔ سرکاری ملازمت کی بات تو چھوڑ دیں نجی ملازمت کے لئے بھی کوئی غور نہیں کرتا۔ مجبوراً ہم کو بہروپیا بننا پڑتا ہے۔ ایسے میں بھیک نہ مانگیں تو کیا کریں؟ پیٹ تو ہمارے ساتھ بھی لگا ہے"۔

خواجہ سرا کہا جائے یا خسرا، ہیجڑا یا زنانہ۔ یہ لوگ معاشرے سے گلہ رکھتے ہیں۔ عمر رسیدہ نذیراں نے وائس آف امریکا کو کو بتایا "معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ ہیں ہم۔ نوجوان ہمیں دیکھتے ہی چھیڑ خانی پر اتر آتا ہے، عورتیں ہمیں دیکھ کر منہ چھپالیتی ہیں، بچے سہم کر ایک طرف ہوجاتے ہیں۔ زمانے کے ہاتھوں مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ کسی جگہ شنوائی نہیں۔ عورتیں ہمیں عورت اور مرد ہمیں مرد نہیں مانتے، پھر تیسری جنس کہا ں جائے اپنا پیٹ پالنے"؟

ابوالحسن اصفہانی روڈ پر رہنے والے ایک اور خواجہ سرا بوبی عرف پپو نے جو اپنی عمر کا ایک طویل حصہ یوں ہی بسرکر چکا ہے، اس نمائندے کے سوال پر بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ کہا: "عام لوگوں کی طرح میں بھی بچپن میں بڑا آدمی بننے کا خواب دیکھا کرتا تھا مگر جوں جوں میرے جسم میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئیں آس پڑوس کے لوگوں، گلی محلے کے دوستوں حد یہ کہ گھر والوں نے بھی مجھ سے امتیاز برتنا شروع کردیا اور ایک رات ماں باپ مجھے خود میرے جیسے ہی دوسرے لوگوں کی بستی میں چھوڑ کرچلے گئے۔ یہیں سے میری زندگی نے نیاٹرن لیا۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں کا ساتھ چھوٹ گیا۔ یہ لوگ میرے لئے صرف ایک خواب بن کررہ گئے۔ اسکول، کتابوں اور بڑا آدمی بننے کا خواب کہیں پیچھے چھوٹ گیا۔ بھر پیٹ بھر کر کھانا یا من پسند کھانا بھی صحرا کا گلاب بن گیا۔ اپنوں نے رشتے ناطے توڑ لئے، گھنگھرو پہننا، ڈھولک بجانا اور ناچ گانا سیکھنا پڑا۔ کس کس بہانے سے لوگوں سے پیسے نکلوانا ہیں، یہ ہنر سیکھنے کے لئے کبھی مار کھانا پڑی اور کبھی کوئی اور سزا بھگتنا پڑی"۔

"اور اب وہ دور آگیا ہے جب عمر ڈھل رہی ہے اور بڑھاپے کا خوف اژدھا بن کر منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ وقت بدل چکا ہے۔ دو وقت کی روٹی کے لئے گلی کوچوں اور چوراہوں پر بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ بے رحم زمانہ مورد الزام ٹھہرا رہا ہے کہ یہ لوگ نئی نسل میں ایڈز کے جراثیم پھیلا رہے ہیں۔ ایک اور خوف یہ بھی ہے کہ خود کسی بیماری میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ اگر واقعی ایسا ہوگیا تو کون آئے گا حال پوچھنے؟ روزی روٹی کا کیا ہوگا؟ کفن دفن کون کرے گا؟ یہاں حکومت بھی کچھ کرنے پر آمادہ نہیں۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ سے آوازیں بلند ہوئیں تھیں اور کہا گیا تھا کہ ہم سے بھی کام لیا جائے گا، ہوسکتا ہے کچھ کو ملا بھی ہو مگر سب کہاں کھپیں گے؟ حکومتی سطح پر فلاح و بہبود تو دور کی بات ہے، نہ بیوی بچے ہیں نہ ماں باپ۔ جائیں تو جائیں کہاں"؟

انتہائی غربت، بیروزگاری اور معاشرے میں باعزت مقام نہ ملنے کا شکوہ کرنے والے یہ لوگ زیادہ ترایسے علاقوں میں مقیم ہیں جہاں خود زندگی کی کئی سہولتیں دستیاب نہیں۔ پولیس بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ان پر ہم جنس پرستی کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ اب تو غیرسرکاری تنظیمیں بھی کہنے لگی ہیں کہ یہ معاشرے میں ایڈز پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ان الزامات کے جواب میں اورنگی کی ہی باسی ممتازنے بتایا: "صاب جی منہ نہ کھلوائیں میرا۔ جو لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں نہ ان میں سے اکثر ہمارے بگاڑ کا سبب ہیں۔ پولیس ہمیں تحفظ فراہم کرنے کے بجائے خود ہم سے 'حصہ' مانگتی ہے۔ ہم برے ہیں تو ہمیں برا بنانے والے بھی یہی لوگ ہیں جن سے معاشرہ وجود پاتا ہے۔ جولوگ دن کی روشنی میں ہمیں دھتکارتے ہیں وہی رات کے اندھیرے میں ہمارا پتہ پوچھتے پھرتے ہیں"۔

XS
SM
MD
LG