کراچی میں حال ہی میں ائیرلفٹ اور ایس ڈبلیو وی ایل نامی کمپنیوں نے اپنی سروس شروع کی ہے، دونوں آن لائن سروسز کو شہر میں بہت کم عرصے میں کافی پذیرائی ملی ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد موبائل ایپ کے استعمال کے ذریعے اس پر سفر کر رہے ہیں۔
دوسری جانب ٹرانسپورٹ کی جدید سہولت فراہم کرنے والی ان کمپنیوں کو صوبائی حکومت نے اپنا آپریشن قانون کے دائرہ کار میں لانے، این او سی، فٹنس سرٹیفکیٹ اور دوسرے ضابطے پورے کرنے کا کہتے ہوئے بصورت دیگر ان کی سروس بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔
آن لائن ٹرانسپورٹ سروس پروائڈر ز کیا کہتےہیں؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ائیر لفٹ کےایگزیکٹو ڈائریکٹر سید مہر حیدر نے بتایا کہ ان کی کمپنی مکمل طور پر ایک پاکستانی کمپنی ہے جو ملک میں سیریز اے فنانسنگ کے ذریعے 12 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ان کے مطابق یہ رقم خطے میں اس طرح کی سرمایہ کاری کی سب سے بڑی رقم ہے۔
ان کے مطابق کمپنی کی رجسٹریشن اور دیگر قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئےاس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے وہ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں تاکہ شہریوں کو سہولت فراہم کی جا سکے۔
سید مہر حیدر کے مطابق لاہور کے بعد کمپنی نے کراچی میں بھی اپنی سروس شروع کی ہے، اور یہاں انہیں لاہور سے بھی بہتر رسپانس دیکھنے کو ملا ہے۔ اس وقت کراچی میں ان کی درجنوں بسیں چل رہی ہیں اور اس بیڑے میں مزید بیسی بھی شامل کی جا رہی ہیں۔
حکومت سندھ کا موقف
صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اویس قادر شاہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی مکمل حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ ان کمپنیز نے آزمائشی بنیادوں پر اپنا بزنس شروع کیا ہے جس کی وجہ سے ابھی کئی قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ تاہم حکومت نے انہیں اپنا آپریشن شروع کرنے کی اجازت لوگوں کی ٹرانسپورٹ کی مشکلات کم کرنے کی وجہ سے دی ہے۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹرانسپورٹ لوگوں کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی ہے۔ دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومت کے بس ریپڈ سسٹم کے منصوبے 300 ارب روپے کی لاگت کے باوجود ابھی تک مکمل نہیں ہو پائے۔
عام شہری مشکلات کا شکار ہیں
ایک مقامی پرائیویٹ کمپنی میں کام کرنے والی آسیہ کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ گلشن حدید سے آئی آئی چند ریگر روڈ پر واقع دفتر میں جاتی ہیں جو کہ یک طرفہ سفر 45 کلو میٹر بنتا ہے۔ ان کے مطابق اتنا لمبا سفر پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنا محال ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ جب کہ کوچز وغیرہ زیادہ تر سی این جی پر چلتی ہیں اور وہ سی این جی کے ںاغے کے روز سڑکوں پر نہیں آتیں۔ اکثر انہیں پرائیویٹ کار کے ذریعے بھی سفر کرنا پڑتا ہے جو کہ 800 سے 1200 روپے تک یکطرفہ کرایہ لیتے ہیں۔
آسیہ کے مطابق ایپلیکیشن بیسڈ گاڑیاں چلنے سے ان کی یہ مشکل کافی حد تک کم ہوئی ہے اور وہ باآسانی اپنے رووٹ کی بس دفتر میں بیٹھ کر ہی شناخت کر لیتی ہیں اور یہ کہ ان کا کرایہ بھی مناسب ہے۔ لیکن ابھی ان گاڑیوں کی تعداد بہت کم ہے۔
آبادی کے لحاظ سے ٹرانسپورٹ ناکافی ہے
ایک تحقیق کے مطابق کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا حصہ محض ساڑھے چار فی صد ہے، جو زیادہ مسافروں کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد ہر سال گھٹ رہی ہے۔
2011 میں رجسٹرڈ پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد 22 ہزار سے زائد تھی جو 2014 میں میں 9 ہزار 5 سو رہ گئی۔ جب کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران بھی بسوں، منی بسوں اور کوچز کی تعداد مزید کم ہوئی ہے۔
اس وقت شہر میں بسوں کی تعداد 5000 سے بھی کم ہے جو 56 لاکھ مسافروں کو سفر کی سہولت مہیا کرتی ہیں۔ یہ روزانہ سفر کرنے والوں کی تعداد کا 42 فی صد ہے۔ اس طرح کراچی میں ایک بس کے حصے میں یومیہ 257 مسافر آتے ہیں۔
شہریوں کی اکثریت آمد و رفت کے لیے پرائیویٹ گاڑیاں استعمال کرتی ہے جو شہر کی کل ٹریفک کا تو 36 فیصد ہے لیکن وہ صرف 21 فی صد مسافروں کی ضروریات کو ہی پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
کراچی میں رکشوں اور ٹیکسیوں کی تعداد شہر کی کل ٹریفک کا لگ بھگ 10 فی ہے جن سے 8 فی صد مسافروں کو سفری سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے شہرمیں ٹریفک جام، آلودگی اور ایندھن کا بے جا استعمال بڑھ گیا ہے۔
ٹرانسپورٹ کا موجودہ نظام بوسیدہ اور ناکافی ہے
شہری امور کے ماہر اور اربن ریسورس سینٹر کے ڈائریکٹر محمد یونس کے مطابق شہر میں موجودہ ٹرانسپورٹ نظام مکمل طور پر پرانا اور ناقابل استعمال ہے جس کی بہتری کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
اسے بہتر بنائے بغیر شہریوں کی زندگی کے معیار کو بہتر بنایا نہیں جا سکتا۔ ان کے مطابق کراچی میں فوری طور پر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔