کراچی: جامعات کا ترمیمی بل منظور

سندھ اسمبلی نے دوسری بار جامعات کا ترمیمی بل پاس کر لیا ہے، جس کے تحت صوبے میں موجود 24 سرکاری جامعات کا کنٹرول گورنر کے ہاتھوں سے نکل کر وزیر اعلیٰ کے پاس چلا جائے گا۔

سندھ اسمبلی کی جانب سے پہلی بار ’سندھ یونیورسیٹیز اینڈ انسٹیٹیوٹس ترمیمی بل 2018‘ منظور کرنے پر گورنر سندھ محمد زبیر نے اس پر اعتراض لگا کر اسمبلی سیکریٹریٹ کو واپس بھیج دیا تھا۔

سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران بل سینئیر صوبائی وزیر نثار احمد کُھہڑو نے پیش کیا، جس پر اپوزیشن بینچز نے احتجاج کیا اور اسے نامنظور قرار دیا۔ اس دوران، اپوزیشن ارکان اسمبلی نے بل کی کاپیاں بھی پھاڑ دی گئیں۔

اسمبلی کی کارروائی کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے اس بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ’’جبراً اس بل کو منظور کرانا چاہتی ہے‘‘۔ بقول اُن کے، ’’جامعات کے اختیارات گورنر ہی کے پاس رہنے چائیے۔ اس بل کا مقصد جامعات میں من مانی پالیسیاں لاگو کرنا ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کی سرکاری جامعات میں داخلے کا پہلا حق کراچی کے بچوں ہی کا ہے۔ لیکن، بل کی آڑ میں داخلہ پالیسی بھی تبدیل کی جائے گی جس کی ان کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ اجازت نہیں دے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ اس بل سے جامعات کی خودمختاری میں کمی جبکہ سیاسی عمل دخل میں اضافہ ہوگا۔

دوسری جانب صوبائی وزیر تعلیم نثار کُھہڑو نے اپوزشین کے خدشات کو ’’بے بنیاد‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ تعلیم حکومت کی اہم ترجیح ہے اور اس مقصد کے لئے حکومت نے کئی جامعات بھی قائم کی ہیں جو صوبے میں تعلیم کی فراہمی میں اہم کام سرانجام دے رہی ہیں۔

بحث کے بعد، سندھ اسمبلی نے بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ اسمبلی کی جانب سے دوسری بار یہ بل منظور ہونے کے بعد بل دستخط کے لئے دوبارہ گورنر کے پاس بھیجا جائے گا۔ لیکن، اگر دوسری بار بھی گورنر سندھ نے اس بل کو منظور نہ کیا تو تیسری بار اسمبلی سے منظور کرنے پر ہی بل ازخود قانون بن جائے گا۔

سندھ اسمبلی کی جانب سے پہلی بار یہ ترمیمی بل منظور کرنے پر بھی اپوزیشن ارکان اور جامعات کے اساتذہ نے بھرپور احتجاج کیا تھا۔ ان کا موقف ہے کہ گورنر کی جگہ وزیر اعلیٰ کے پاس چانسلر اور وائس چانسلرز کی تقرری کے اختیارات سمیت داخلہ پالیسیز کی تشکیل کے علاوہ دیگر اختیارات آجائیں گے۔

بل کے مخالفین کے مطابق اس ترمیم سے افسر شاہی کو فائدہ پہنچے گا اور جامعات کے اہم ترین اور عہدوں پر خلاف میرٹ تقرریوں کے خدشات پیدا ہوں گے۔ بقول مخالفین، بل کی منظوری کے ذریعے مقتدر قوتوں کو سفارش، پرچی سسٹم، اقربا پروری کی بنیاد پر ملازمتوں اور داخلوں کی بندر بانٹ کا لائسنس مل سکتا ہے۔

بل کے خلاف مختلف جامعات میں اساتذہ نے احتجاج اور ہڑتالیں بھی کی تھیں۔ سندھ حکومت نے اساتذہ اور جامعات میں کام کرنے والے ملازمین کے خدشات دور کرنے کے لئے کئی اجلاس کئے۔ لیکن، اس حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات اب تک دور نہیں ہوئے ہیں۔