حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے صوبائی عہدیداروں کی طرف سے عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے خلاف جمعہ کو سندھ بھر میں ہڑتال کی گئی اور احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ ملک کے اقتصادی مرکزاور صوبائی دارالحکومت کراچی میں تمام سرکاری اور نجی اسکول بند رہے جب کہ شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور تشد د کے واقعات میں کم از کم چار افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے ہیں۔
عدالتی فیصلے کے خلاف اراکین سندھ اسمبلی نے بھی جمعہ کو ہونے والے اجلاس میں احتجاجاً سیاہ پٹیاں باندھ کر شرکت کی۔
سندھ میں ہڑتال کی کال عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ کے اُس فیصلے کے بعد دی گئی تھی جس میں جمعرات کو عدالت نے قومی احتساب بیورو ’نیب‘ کے چیئرمین دیدار حسین شاہ کی تقرری کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔
اکتوبر 2010 میں جسٹس ریٹائرڈ دیدار حسین کی بطور چیئرمین نیب تقرری کے خلاف قائد حزب اختلاف چوہدری نثاراور شاہد اورکزئی نامی ایک شخص نے الگ الگ درخواستیں دائر کی تھیں جن میں یہ موقف بھی اپنایا گیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دو مرتبہ سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں اس لیے انسداد بدعنوانی کے قومی ادارے کے سربراہ کے طور پر اُن کی تعیناتی درست نہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی کی صدرعاصمہ جہانگیر نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف سندھ میں ہڑتال کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے برادشت کی پالیسی اپنانے کی ضرور ت ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عدالت کا تفصیلی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے اس لیے اس سے قبل اس طرح کے اقدامات غیر ضروری ہیں ۔ ”ابھی کوئی اتنی بات نہیں بگڑی، یہ وہ ججمنٹ (فیصلہ) نہیں ہے جو یہ کہہ دے کہ پارلیمنٹ کو آئین میں حق ہی نہیں کچھ چیز کرنے کا یا آئین کی ایمنڈمنٹ (ترمیم ) کو اُڑانے کا ۔ یہ فیکٹس (حقائق ) پر مبنی ہے “۔