'پہلے اسکول میں سزا ملی اور اب میرا بچہ دوسروں سے ’بولیئنگ‘ کا شکار ہورہا ہے'

میرا بچہ اس وقت مسلسل سو رہا ہے بس وہ کھانے کے لیے اٹھتا ہے اور پھر سو جاتا ہے۔ اس نے گھر سے باہر جانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ٹی وی پر بار بار یہ خبر دیکھ کر وہ پریشان ہورہا تھا۔ اس لیے اب ہم نے ٹی وی بھی بند کردیا ہے۔ یہ کہنا ہے 45 سالہ عاطف کا جو موسیٰ کے والد ہیں۔

موسیٰ عاطف پانچویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ انہیں27 جنوری کو کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں قائم نجی اسکول میں اس وقت سزا کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں ان کی ٹیچر نے دوستوں سے اردو زبان میں بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ٹیچر نے ان کے چہرے پر سیاہ دھبہ لگا کر بچوں کو ان کا مذاق اڑانے کا کہا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بچے کے والد عاطف کا کہنا تھا، میرے تین بیٹے ہیں۔ موسیٰ سب سے چھوٹا ہے۔ یہ ہمارے گھر کا بہت ہی سمجھدار اور شرمیلا بچہ ہے۔ زیادہ بات کرتا ہے اور نہ ہی زیادہ دوست بناتا ہے۔ ہمارا گھر اسکول کے بہت قریب ہے۔ جب میرا بیٹا گھر آیا تو کافی سہما ہوا تھا۔ میرے اور بیوی کے بار بار پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ اسکول میں یہ سلوک کیا گیا ہے۔ جب اس کے چہرے پر سیاہ نشان لگایا گیا تو اس نے اپنی جیکٹ سے نشان چھپانے کی کوشش کی لیکن ٹیچر نے وہ جیکٹ ہٹا کر اسے دوسرے بچوں سے الگ کر کے نمایاں کیا اور دوسرے بچوں کو اس کا مذاق اڑانے کا کہا۔

اس واقعے کے بعد محکمہ تعلیم سندھ نے نجی اسکول کی رجسٹریشن معطل کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسکول پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کردیا ہے۔

سندھ کے محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری ہونے والاحکم نامہ۔ 30 جنوری 2023

27 جنوری کو بچے کے والد کی جانب سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تھی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بچے کے چہرے پر ایک سیاہ نشان موجود ہے اور والد یہ بتارہے ہیں کہ اسکول کی انتظامیہ نے ان سے اس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی جس پر وہ یہ ویڈیو بنا رہے ہیں۔ یہ خبر دیکھتے ہی دیکھتے ایسی وائرل ہوئی کہ ہر پلیٹ فارم اور ٹی وی پر نظر آنے لگی۔ جس پر لوگوں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار سامنے آیا۔

وائس آف امریکہ نے اس حوالے سے سولائزیشن پبلک اسکول انتظامیہ سے رابطہ کیا جس پر اسکول کے بورڈ آف ڈائریکٹر سبطین نقوی نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس واقعے پر شدید افسوس ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ کسی بھی بچے کے ساتھ ایسا سلوک ہونا یقینی طور پر بچے اور اس کے والدین کے لیے نا قابل قبول ہے۔ لیکن ہمارے علم میں یہ بات تب آئی جب واقعہ سوشل میڈیا پر آیا۔ والدین کو بچے کے حوالے سے جیسے ہی یہ معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ ٹیچر نے ایسا کیا ہے انہیں اسی وقت اسکول انتظامیہ یا پرنسپل کو بتانا چائیے تھا۔ مسئلے کی نشاندہی ہونے کے بعد ہم اسکول کی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر فوراً ایکشن لیتے۔ ہم نے خود سے اس پر انکوائری کی اور ملوث ٹیچر جو ہمارے اسکول میں گزشتہ دس سال سے پڑھا رہی ہیں انہیں شو کاز نوٹس جاری کیا جس پر ان کا استعفی ہمیں ملا جسے ہم نے فوری منظور کیا ۔ اب وہ ٹیچر اس اسکول کا حصہ نہیں ہیں۔

لیکن عاطف اسکول کے موقف کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جب وہ بچے کو اسکول لے کر پہنچے تو انہوں نے سب سے پہلے اسکول کی پرنسپل پروین علوی سے بات کی اور سارا معاملہ پیش کی۔ جس پر پرنسپل نے بچے کو ڈانٹا اور کہا کہ آپ نے اردو میں بات ہی کیسے کی۔ غلطی آپ کی ہے۔

عاطف کے مطابق جب انہوں نے پرنسپل سے ایسی سزا دینے پر استفسار کیا تو انہیں یہ جواب دیا گیا کہ ہمار ا اسکول ایسے ہی چلے گا ۔ آپ پڑھانا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ کہیں اور چلے جائیں۔

پرنسپل کے بعد عاطف اسکول کے مالک علی خورشید کے پاس گئے لیکن وہاں بھی ان کی بات نہیں سنی گئی جس کے بعد وہ انتظامیہ کے ایک اور شخص کے پاس گئے جہاں سے مثبت جواب نہ ملنے پر انہوں نے ویڈیو بنانے کا ارادہ کیا۔

اس ویڈیو کو بنانے کا مقصد صرف یہی تھا کہ جو زیادتی میرے بچے کے ساتھ ہوئی ہے اسے انصاف ملے۔ نہ میرا ارادہ کسی کی نوکری کو ختم کرانے کا تھا نہ ہی کچھ اور۔ اس وقت مجھے یہی راستہ اختیار کرنا ٹھیک لگا اور اسی ویڈیو کی وجہ سے انکوائری ہوئی اور آج محکمہ تعلیم نے انصاف کیا۔ میں نے اس واقعے کی تحریری شکایت بھی محکمہ تعلیم سے کی تھی۔جس کے بعد انکوائری میں سی سی ٹی وی فوٹیجز کو بھی چیک کیا گیا اور ہم درست ثابت ہوئے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پشاور کا سرکاری اسکول جہاں طلبہ پرائیوٹ اسکول چھوڑ کر داخلہ لے رہے ہیں


اسکول میں بچے اکثر بلنگ کا شکار ہوتے ہیں اور کئی بار اساتذہ کی جانب سے سزاؤں کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ اس واقعے کا ایک طالب علم کے ذہن پر کیا اثر پڑ سکتا ہے، اس پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی کے کہنا تھا کہ کسی بھی بچے کو اس قسم کی سزا دینے کا عمل اس بچے کے ذہن پر نہ صرف منفی اثر ڈالتا ہے بلکہ اس کے اردگرد بچوں پر بھی اس کا اثر براہ راست ہوتا ہے۔ اردو بولنے پر چہرے پر سیاہ نشان لگانا اور پھر دوسرے بچوں کو اس پر ہنسانا انتہائی قابل مذمت ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقعے میں ملوث استاد کسی ایسے موقع پر جب اسے مشکل وقت میں کوئی بڑا فیصلہ کرنا ہو، وہ اس کے قابل نہیں ہے۔ بچوں کو سزائیں دینے یا سمجھانے کے طریقے بہت سے ہیں، لیکن اس طرح کی سزاؤں سے بچوں میں ڈر، خوف،احساس کمتری جیسے احساس جنم لیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ احساسات اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ بچوں میں خود کشی کرنے کا رجحان بھی بڑھ سکتا ہے۔

عاطف کے مطابق میرے بچے کو محلے کے کچھ بچوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ ایک سیلفی بنالو۔ اب تو تم بہت مشہور ہوگئے ہو ، ہر کوئی تمہاری ہی بات کر رہا ہے۔ میرا بچہ اس وقت شدید مشکل کا سامنا کر رہا ہے جو ہمارے لیے شدید پریشان کن ہے۔

اس واقعہ کو سوشل میڈیا پر نشر کرنے اور مسئلے کو اجاگر کرنے کی سوچ کیا درست تھی؟ اس حوالے سے ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ، آج کل لوگ مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں رہتے ہیں یہ رجحان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ لوگ اس کے دور رس نتائج کی پرواہ کیے بغیر وہ کچھ کر جاتے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چائیے۔ اس واقعے میں بھی بچے کے والد نے بچے کی مرضی جانے بغیر اس کی ویڈیو بناکر پوسٹ کردی۔ کیونکہ یہ واقعہ اسکول کی حدود میں ہوا تھا۔ اس وقت تک یہ افسوس ناک عمل محدود لوگوں کے علم میں تھا، لیکن اس متاثرہ بچے کی ویڈیو بنا کر جو پہلے سے ہی اس واقعے کے زیر اثر تھا، اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے مزید رسوا کیا گیا۔ جس کا اثر اس بچے پر مدتوں رہے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں اس بات کو سرے سے ہی نظر انداز کردیا گیا کہ بچے کی تصاویر اور ویڈیوز کو نشر کرنے کے بعد اس بچے کا اسکول میں رہنا اور پڑھنا کس قدر مشکل کردیا گیاہے۔ اگر وہ بچہ کسی اور اسکول میں بھی چلا جائے تو یہ واقعہ نہ صرف اس سے جڑا رہے گا بلکہ مسلسل نہ ختم ہونے والے سوالات اسے یہ واقعہ بھولنے نہیں دیں گے۔اس بچے کو ہمیشہ یہ خوف رہے گا کہ لوگ اسے پہچان گئے ہیں اب وہ کیا سوچ رہے ہوں گے کیا پوچھیں گے۔ یہ وہ تمام باتیں ہیں جس کے سبب وہ بچہ ڈپریشن یا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کا شکار ہوسکتا ہے۔ یہی نہیں سوشل میڈیا اور ٹی وی پر ایسی خبر اور تصاویر چلنے سے دیکھنے والے بھی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی وجہ سے نہ صرف پریشان ہوں گے بلکہ بچوں کے اذہان پر بھی اس کا منٖفی اثر پڑ سکتا ہے کہ کہیں مستقبل میں انہیں بھی اس کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔

بچے کے والد عاطف، محکمہ تعلیم کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے پر مطمئن ہیں۔ لیکن اسکول کی جانب سے ٹیچر کونوکری سے نکالنے کے حق میں نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہماری بات اسی وقت سنی جاتی اور غلطی کو تسلیم کرلیا جاتا تو شاید بات یہاں تک نہ پہنچتی۔ اسکول کو چاہیے تھا کہ وہ ٹیچر کو بلاتے، ان سے پوچھتے اور ہمیں آئندہ ایسی حرکت نہ ہونے کی یقین دہانی کرادیتے۔ لیکن اسکول کی جانب سے جو رویہ اختیار کیا گیا وہ انتہائی مایوس کن تھا۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ کسی کی نوکری میری وجہ سے چلی جائے یا اسکول بند ہو، کیونکہ یہاں کئی سو بچے زیر تعلیم ہیں۔ میرا بیٹا یہاں سات سال سے زیر تعلیم ہے۔ آج تک ہمیں کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ نہ جانے اس وقت ٹیچر کس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ایسا کرتی چلی گئیں۔ شاید وہ بھی کسی پریشانی کا شکار ہوں۔ لیکن ایک استاد کو نوکری سے نکال کر سمجھنا کہ اب سب ٹھیک ہے درست نہیں۔ اسکول نے واقعے کے روز سے ہی اس مسئلے کو غیر سنجیدگی سے لیا تھا، جس پر ہمیں سوشل میڈیا پر آواز بلند کرنی پڑی۔ اب ہر کوئی اسے اپنے انداز سے دیکھ بھی رہا ہے اور مفاد کے لیے استعمال کررہا ہے۔

SEE ALSO: جامعہ کراچی:خاتون کا خود کش حملہ آور بننا کیا ظاہر کرتا ہے؟


سبطین نقوی کے مطابق، اسکول میں اس وقت 800ے زیادہ بچے زیر تعلیم ہیں۔ یہ ایک ٹیچر کی جانب سے ججمنٹ کی غلطی ہے جس پر انہوں نے ایک طالب علم کو شرمندہ کیا ، جو ہمارے لیے بھی ناقابل قبول ہے۔ لیکن جب یہ معاملہ سوشل میڈیا پر آیا تو ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ اس کا اثر ہمارے اسٹاف، اساتذہ اور یہاں پڑھنے والوں پر نہ ہو، کیونکہ ہر جانب سے ہم پر تنقید جاری تھی۔ ہمارا اسکول اردو کی ترویج میں اپنا واضح کردار ادا کرتا رہا ہے اس لیے یہ تائثر درست نہیں کہ اسکول میں اردو پر انگریزی کو ترجیح حاصل ہے۔27 جنوری کو رونما ہونے والا واقعہ ہمارے فلسفے اور سوچ کے خلاف ہے۔

ڈاکٹر اقبال آفریدی کے مطابق، لوگ برائی کی نشاندہی لازمی کریں تاکہ اس کی اصلاح ہو اور یہ سب بات چیت سے بھی ممکن ہے۔ اس واقعے میں جو اہم باتیں سیکھنے کی ہیں وہ یہ ہیں کہ اسکول میں دی جانے والی یہ سزا ہر لحاظ سے غیر اخلاقی تھی اور پھر اس کے والدین نے مسئلے کو اجاگر کرنے اور غلطی کی نشاندہی کے لیے جس طرح واقعہ کو سوشل میڈیا پر اجاگر کیا اس سے ہر طرح سے بچے کے لیے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ میرے نزدیک ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں اخلاقیات کو بطور مضمون شامل کرنا چائیے اور اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ میرے کسی عمل سے کسی کی زندگی متاثر تو نہیں ہوگی۔ اگر یہ بات ابتدائی سطح پر ہی سکھائی جانے لگے تو اس طرح کے واقعات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔

اسکول کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاچکی ہے کیا موسیٰ دوبارہ سے اسکول جائیں گے؟ اس سوال پر بچے کے والد کا کہنا تھا کہ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد کیا میرا بچہ اس اسکول میں پڑھ پائے گا؟ یا کوئی دوسرا اسکول اسے داخلہ دے گا؟ یہ سوالات اب ہمیں بھی تنگ کر رہے ہیں اور شاید میرے بیٹے کو بھی۔ مجھے اب یہ محسوس ہورہا ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اس میں اسکول کی غلطی اپنی جگہ تھی لیکن میرا یہ فیصلہ کہ میں سوشل میڈیا پر اس مسئلے کی نشاندہی کروں اب میرے خاندان اور بچے کی زندگی کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔