انڈونیشیا میں چینی کمپنی سائنو ویک بائی ٹیک کی کرونا وائرس کی ویکسین، کرونا ویک کی دونوں خوراکیں لینے کے باوجود طبی عملے کے کئی کارکنوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے اگرچہ چین کی ویکسین زیادہ مؤثر تو نہیں لیکن کچھ نہ ہونے سے کہیں بہتر ہے۔
انڈونیشین میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں اب تک ایسے 10 ڈاکٹر ہلاک ہو چکے ہیں جنہوں نے کرونا ویک ویکسین کی دونوں خوراکیں بھی حاصل کی ہوٹی تھیں۔
وائس آف امریکہ کے سٹیو باراگونا کے مطابق ویکسین لگوانے کے بعد ہلاک ہونے والے ان ڈاکٹروں کے متعلق یہ معلومات بہت کم دستیاب ہیں جس سے یہ پتا چل سکے کہ بیماری کی شدت کی نوعیت کیا تھی اور کتنے اور ایسے افراد وائرس سے متاثر ہوئے۔
جہاں تک ڈیٹا موجود ہے اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ ویکسین دوسری کمپینیوں کی تیار کردہ ویکسینز سے کم موثر ہے، خصوصاً بھارت میں پہلی بار دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی تیزی سے پھیلنے والی ہلاکت خیز قسم ڈیلٹا کے خلاف۔
SEE ALSO: بھارت میں موڈرنا ویکسین کے استعمال کی منظوری مل گئیماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے اکثر حصوں کو ابھی تک اعلیٰ معیار کی ویکسینز تک رسائی میسر نہیں ہے۔ انڈونیشیا بھی ان ممالک میں شامل ہے جن کی رسائی زیادہ تر چینی کمپنیوں کی تیار کردہ ویکسین تک محدود ہے۔
سٹیو باراگونا کے مطابق اس ویکسین کو پرکھے جانے کے بعد سائنسی اور طبی جریدوں میں ماہرین کی شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹس کی تعداد بہت کم ہے۔
یوروگوئے کی حکومت نے رواں ماہ کے اوائل میں کرونا ویک کے بارے میں ایک تحقیق شائع کی ہے، جس کے مطابق یہ ویکسین کرونا وائرس سے محفوظ رکھنے میں 61 فیصد تک مؤثر ہے، اسپتال داخل ہونے کے امکان کو 92 فیصد کم کرتی ہے اور کرونا سے اموات کو 95 فیصد تک روکتی ہے۔
ماہرین نے ابھی اس دعویٰ کی جانچ پرکھ نہیں کی لیکن اس تحقیق میں کرونا ویک کا تقابل دوسری ویکسینوں سے کیا گیا ہے۔
تحقیق کے مطابق فائزر کی ویکسین سب سے زیادہ موثر ثابت ہوئی ہے، جو نئے کیسز میں 78 فیصد کمی کرتی ہے۔ لیکن شدید بیماری کی حالت میں اسپتال جانے اور ہلاکتوں کی شرح تقریباً کرونا ویک جتنی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سٹیو باراگونا کے مطابق اس بارے میں بھی معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ اس تحقیق کے دوران کرونا وائرس کی کن اقسام کو استعمال کیا گیا تھا۔
کسی بھی ویکسین کے مؤثر ہونے میں ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ ویکسین کتنی تعداد میں اینٹی باڈیز بناتی ہے۔ اینٹی باڈیز قوت مدافعت کی وہ پروٹین ہے جو وائرس کے جسم میں داخلے پر اسے خلیوں کو متاثر کرنے سے روکتی ہے اور اسے ختم کرتی ہے۔
نیشنل اسکول آف ٹراپیکل میڈیسین کے ڈین اور بائلر کالج آف میڈیسین کے پروفیسر پیٹر ہوٹیز کے مطابق فائزر اور موڈرنا ویکسینز جسم میں اینٹی باڈیز کی ایک بڑی مقدار پیدا کرتی ہیں جس کی وجہ سے یہ دونوں کرونا وائرس کی نئی اقسام کے خلاف بھی مؤثر ہیں۔
ان کے بقول، ’’یہ درست ہے کہ ڈیلٹا وائرس کی وجہ سے لوگ ویکسین لگوانے کے باوجود بھی لوگ بیمار ہو رہے ہیں، لیکن ایسے افراد میں بیماری کی شدت زیادہ نہیں تھی۔‘‘
ان کے مطابق لوگ اب کرونا وائرس کی وجہ سے اسپتال میں داخل نہیں ہو رہے اور نہ ہی بیماری کی وجہ سے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔
SEE ALSO: کرونا وبا سے ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کی مشکلات میں اضافہلیکن ان کے مطابق جب آپ سائنو ویک کی ویکسین کا ڈیٹا دیکھتے ہیں تو دو خوراکوں کے باوجود اینٹی باڈیز کی تعداد کم سطح پر رہتی ہے۔
نیثر میڈیسین کی ایک تحقیق کے مطابق سائنو ویک کی ویکسین نے سات دوسری ویکسینوں کے مقابلے میں کم سطح پر اینٹی باڈیز پیدا کیں۔ ان ویکسینوں میں فائزر، موڈرنا، ایسٹرزینکا اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسینیں بھی شامل تھیں۔
کرونا ویک ویکسین کے استعمال کرنے والے ملک انڈونیشیا اور دیگر کئی ممالک میں تیزی سے پھیلنے والی وائرس کی ’ڈیلٹا‘ قسم کے خلاف اینٹی باڈیز کا ردعمل بھی زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوا۔
ایک چینی افسر نے چین کے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ یہ ویکسین بیماری کی شدید ترین اقسام کے خلاف مؤثر حفاظت فراہم کرتی ہے۔
چین کے وبائی امراض کے کنٹرول کے ادارے کے سابقہ ڈپٹی ڈائریکٹر فینگ زیاجنگ نے بتایا کہ اس ماہ کے اوائل میں جب چین میں پہلی دفعہ کرونا وائرس کی 'ڈیلٹا' قسم گوانڈونگ صوبے میں نمودار ہوئی تو بقول ان کے ’’جن لوگوں کو ویکسین لگ چکی تھی وہ شدید بیمار نہیں ہوئے، اور جن لوگوں پر وائرس کا حملہ شدید تھا، ان میں سے کسی کو بھی ویکسین نہیں لگی تھی۔‘‘
سٹیو بارگونا کے مطابق دنیا کے اکثر خطوں میں اب آہستہ آہستہ دوسری ویکسینوں کی رسد شروع ہو چکی ہ
پیٹر ہاٹیز کے مطابق کبھی کبھی لوگوں کی ویکسین تک رسائی محدود ہوتی ہے۔ یہ ویکسین بقول ان کے ’’کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔‘‘