اپنی انتخابی مہم کے آغاز پر دیے جانے والے انٹرویو میں سابق فیلڈ مارشل نے دعویٰ کیا کہ معزول صدر محمد مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کا زور ٹوٹ چکا ہے۔
واشنگٹن —
مصری فوج کے سابق سربراہ اور صدارت کے مضبوط امیدوار عبدالفتاح السیسی نے عزم ظاہر کیا ہے کہ اگر وہ رواں ماہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوگئے تو ملک میں 'اخوان المسلمون' کا وجود نہیں رہے گا۔
پیر کو اپنی انتخابی مہم کے آغاز پر بیک وقت دو مصری ٹی وی اسٹیشنوں کو دیے جانے والے انٹرویو میں سابق فیلڈ مارشل نے دعویٰ کیا کہ معزول صدر محمد مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کا زور ٹوٹ چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ سال جولائی میں مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے والے السیسی نے فوجی بغاوت کے بعد پہلی بار اتنے واشگاف انداز میں اخوان کے ساتھ مستقبل میں کسی مفاہمت کے امکان کو رد کیا ہے۔
انٹرویو کے دوران جب السیسی سے سوال کیا گیا کہ کیا ان کے صدر بن جانے کے بعد 'اخوان' کا وجود نہیں رہے گا؟تو ان کا جواب تھا، "جی ہاں۔ ایسا ہی ہوگا"۔
جولائی 2013ء کی فوجی بغاوت سے قبل برسرِ اقتدار 'اخوان المسلمون' مصر کی سب سے منظم اور بڑی جماعت تھی جس نے 2011ء میں سابق آمر حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والے مختلف سطح کے تمام پانچ انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
لیکن فیلڈ مارشل (ر) السیسی کی قیادت میں مصری فوج کی محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد سے 'اخوان المسلمون' کے کارکنوں اور حامیوں کے خلاف ملک بھر میں سخت کریک ڈاؤن جاری ہے جس میں اب تک دو ہزار کے لگ بھگ افراد مارے جاچکے ہیں۔
مصر کی عبوری حکومت اخوان کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرچکی ہے جب کہ تنظیم کی تمام قیادت اور ہزاروں کارکن جیلوں میں قید ہیں اور مختلف الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ محمد مرسی جدید مصر کی تاریخ کے پہلے غیر فوجی اور جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے صدر تھے جنہیں فوجی جنتا نے اقتدار میں آنے کے صرف ایک سال بعد ہی برطرف کردیا تھا۔
مصر کی عبوری حکومت نے رواں ماہ کے اختتام پر نئے صدارتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے جس میں حصہ لینے کے لیے فیلڈ مارشل (ر) السیسی نے مارچ میں فوج کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
لیکن فوجی پس منظر کے حامل السیسی کا پیر کو نشر کیے جانے والے انٹرویو میں کہنا تھا کہ ان کے منتخب ہوجانے کے بعد حکومتی معاملات میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔
انٹرویو کے دوران السیسی نے دعویٰ کیا کہ محمد مرسی کی حکومت کی برطرفی کے بعد سے ان پر دو قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔ لیکن انہوں نے ان مبینہ حملوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ السیسی بآسانی صدارتی انتخاب جیت جائیں گے اور خدشہ ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد 'اخوان المسلمون' کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں مزید شدت آجائے گی۔
خیال رہے کہ اخوان اور مصری فوج کے درمیان چپقلش کی تاریخ نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہیں اور مصر کے تمام سابق فوجی صدور کے عہد میں 'اخوان المسلمون' زیرِ عتاب رہی ہے۔
پیر کو اپنی انتخابی مہم کے آغاز پر بیک وقت دو مصری ٹی وی اسٹیشنوں کو دیے جانے والے انٹرویو میں سابق فیلڈ مارشل نے دعویٰ کیا کہ معزول صدر محمد مرسی اور ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کا زور ٹوٹ چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ سال جولائی میں مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے والے السیسی نے فوجی بغاوت کے بعد پہلی بار اتنے واشگاف انداز میں اخوان کے ساتھ مستقبل میں کسی مفاہمت کے امکان کو رد کیا ہے۔
انٹرویو کے دوران جب السیسی سے سوال کیا گیا کہ کیا ان کے صدر بن جانے کے بعد 'اخوان' کا وجود نہیں رہے گا؟تو ان کا جواب تھا، "جی ہاں۔ ایسا ہی ہوگا"۔
جولائی 2013ء کی فوجی بغاوت سے قبل برسرِ اقتدار 'اخوان المسلمون' مصر کی سب سے منظم اور بڑی جماعت تھی جس نے 2011ء میں سابق آمر حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والے مختلف سطح کے تمام پانچ انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
لیکن فیلڈ مارشل (ر) السیسی کی قیادت میں مصری فوج کی محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد سے 'اخوان المسلمون' کے کارکنوں اور حامیوں کے خلاف ملک بھر میں سخت کریک ڈاؤن جاری ہے جس میں اب تک دو ہزار کے لگ بھگ افراد مارے جاچکے ہیں۔
مصر کی عبوری حکومت اخوان کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرچکی ہے جب کہ تنظیم کی تمام قیادت اور ہزاروں کارکن جیلوں میں قید ہیں اور مختلف الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ محمد مرسی جدید مصر کی تاریخ کے پہلے غیر فوجی اور جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے صدر تھے جنہیں فوجی جنتا نے اقتدار میں آنے کے صرف ایک سال بعد ہی برطرف کردیا تھا۔
مصر کی عبوری حکومت نے رواں ماہ کے اختتام پر نئے صدارتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے جس میں حصہ لینے کے لیے فیلڈ مارشل (ر) السیسی نے مارچ میں فوج کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
لیکن فوجی پس منظر کے حامل السیسی کا پیر کو نشر کیے جانے والے انٹرویو میں کہنا تھا کہ ان کے منتخب ہوجانے کے بعد حکومتی معاملات میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔
انٹرویو کے دوران السیسی نے دعویٰ کیا کہ محمد مرسی کی حکومت کی برطرفی کے بعد سے ان پر دو قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔ لیکن انہوں نے ان مبینہ حملوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ السیسی بآسانی صدارتی انتخاب جیت جائیں گے اور خدشہ ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد 'اخوان المسلمون' کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں مزید شدت آجائے گی۔
خیال رہے کہ اخوان اور مصری فوج کے درمیان چپقلش کی تاریخ نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہیں اور مصر کے تمام سابق فوجی صدور کے عہد میں 'اخوان المسلمون' زیرِ عتاب رہی ہے۔