"سن 2001 تک یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کہاں سے شروع ہوتی ہے، چمن سے لے کر ویش منڈی تک ہماری اور ہمارے رشتہ داروں کی زمینیں اور دکانیں تھیں۔"
یہ الفاظ ہیں پاک، افغان سرحد پر واقع ایک گاؤں کے رہائشی شریف اللہ اچکزئی کے جو افغانستان سے پاکستان آنے کے لیے ویزے اور پاسپورٹ کی پابندی کی وجہ سے پریشان ہیں۔
واضح رہے کہ چمن میں پاک، افغان سرحد پر سفری پابندیوں کی وجہ سے 21 اکتوبر سے جاری احتجاجی دھرنے میں روزانہ ہزاروں افراد شرکت کر رہے ہیں۔
دھرنے میں مقامی قبائل، سیاسی و مذہبی جماعتیں، مزدور اور تاجر شریک ہیں جو حکومتِ پاکستان کی جانب سے آمدورفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دیے جانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
حاجی شریف اللہ اچکزئی کہتے ہیں کہ ’’سن 2002 ہی میں لیویز اہلکار سرحد پر واقع دیہات میں آئے اور لوگوں سے کہا کہ وہ سرحد پر باب دوستی کے نام سے دروازہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ دونوں ممالک کی حدود کا تعین ہو سکے۔‘‘
دھرنے کے شرکا کیا کہتے ہیں؟
دھرنے میں شریک چمن کے رہنماؤں اور تاجروں کا کہنا ہے کہ چمن، قلعہ عبداللہ اور قرب و جوار کے اضلاع کی 90 فی صد آبادی کا دارومدار بارڈر سے منسلک کاروبار سے ہے اور اسی لیے چمن کے لوگوں کو پاکستانی شناختی کارڈ پر آنے جانے کی اجازت پرانی طرز پر دی جائے۔
چمن کے ایک سیاسی و مذہبی رہنما مفتی قاسم حقانی کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقوں کے لوگ صرف شناختی کارڈ یا افغان شناختی دستاویز دکھا کر آزادانہ طور پر آتے جاتے تھے مگر اب 76 برسوں میں پہلی بار پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "پاکستانی حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سے چمن کے لاکھوں افراد کے روزگار پر اثر پڑے گا جو روزگار کے لیے روزانہ اس سرحدی گزر گاہ کو عبور کر کے افغانستان اور پاکستان آتے جاتے تھےـ"
انہوں نے کہا کہ سرحد کے دونوں جانب آباد ایک ہی قبائل، زبان اور نسل کے لوگ آباد ہیں جن کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں اور حتیٰ کہ قبرستان بھی مشترکہ ہے۔
مفتی قاسم حقانی کے بقول ’’حکومتی فیصلے کی وجہ سے نہ صرف چمن اور قلعہ عبداللہ کے لوگوں کا معاشی قتل ہو گا بلکہ آپس کے رشتوں پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔"
انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت کی وجہ سے بلوچستان کے اس سرحدی خطے میں زراعت ختم ہو کر رہ گئی ہے اور اب خطے کی 90 فی صد عوام اسی سرحدی تجارت سے وابستہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
چمن کے ایک بزرگ تاجر حاجی غفور اچکزئی کا کہنا ہے کہ چمن کے عوام پاکستان بننے سے پہلے اسی زمین پر آباد تھے۔
ان کے بقول چمن کے لوگوں کی آدھی جائیدادیں افغانستان میں ہیں اور آدھی پاکستان میں ہیں اور برطانوی راج میں بھی چمن کے عوام اور قبائل کو افغانستان آنے جانے کی اجازت تھی۔
چمن سرحد کی اہمیت
پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدل آمدروفت اور تجارت کے لیے طورخم اور چمن سب سے بڑی سرحدی گزرگاہیں ہیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں طورخم سرحد پر 2016 میں آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم متعدد کوششوں کے باوجود پاکستانی حکومت چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کے اطلاق کو یقینی نہیں بنا سکی تھی۔
پاک افغان سرحد تقریباً 2600 کلو میٹر طویل ہے جس کا تقریباً 1229 کلو میٹر پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا جب کہ بقیہ حصہ صوبہ بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سرحدی دروازے کی تعمیر سے لے کر پاسپورٹ اور ویزا کا اجرا
چمن کے رہائشی کہتے ہیں کہ 2001 میں افغانستان میں امریکی افواج کی آمد کے بعد سرحد پر آمدورفت کو ریگولرائز کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
اُن کے بقول اس وجہ سے سرحد پر واقع دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوئے جن کے عزیز و اقارب سرحد پار مقیم تھے۔ سرحد کے اس پار افغانستان کے صوبہ قندھار کے سرحدی ضلع سپن بولدک کی حدود میں واقع ویش نامی قصبہ واقع ہے جس کے پشتو کے معنی تقسیم کے ہیں۔
البتہ افغانستان میں جب حامد کرزئی کی قیادت میں 2002 میں افغانستان میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی تو چمن سرحد پر بارڈر کی حیثیت سے باب دوستی دروازے کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔
باب دوستی دروازے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد پر سرحدی حدود کا تعین کیا جانے لگا جس میں متعدد مکانات، گاؤں اور زمینیں دونوں ممالک میں تقسیم ہوئے۔
البتہ پاکستانی حکومت کو اس وقت سرحدی دروازے کی تعمیر پر اس وقت کی افغان حکومت کے چند وزرا خصوصاً وزیر دفاع جنرل فہیم کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
افغانستان میں طالبان مخالف جنگجو اتحاد ’شمالی اتحاد‘ کے اہم رہنما جنرل فہیم کو اعتراض تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستانی حکومت افغانستان کی حدود میں داخل ہو کر سرحدی دروازہ نصب کر رہی ہے۔
البتہ بعد میں اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کی مداخلت پر صوبہ قندھار کے گورنر گل آغا شیرازی کی پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کے بعد پاکستانی حکومت نے سرحدی دروازے کی تنصیب شروع کی۔
دسمبر 2003 میں سرحدی دروازے کی افتتاحی تقریب میں گل آغا شیرازی اور افغان افسران نے بھی شرکت کی تھی۔
چمن کے سیاسی و مذہبی رہنما مولانا قاسم حقانی کہتے ہیں کہ سرحد پر بابِ دوستی دروازے کی تنصیب کے باوجود شروع کے برسوں میں دونوں اطراف سے لوگ اور گاڑیاں بھی روک ٹوک کے بغیر گزرتی تھیں۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 2010 سے پاکستانی حکومت نے پاکستانی شناختی کارڈز اور افغانستان کے 'تذکرہ' نامی سرکاری دستاویز کو سرحد پار کرنے کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔
اُن کے بقول اس کے ساتھ ساتھ افغان شہری سرحد پر تعینات پاکستانی حکام کو 100 روپے کی ادائیگی کرکے ضلعی تزکرہ بنا کراسی دروازے سے روزانہ پاکستان سفر کرتے تھے۔‘
مارچ 2017 میں پاکستانی حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ متصل سرحد پر خاردار باڑ لگانے کا منصوبہ شروع کیا گیا جس کا بنیادی مقصد مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانا اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیاں روکنا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت سرحد پر باڑ لگا کر لوگوں کی غیر قانونی آمدورفت اور اسمگلنگ روکنے کے ساتھ ساتھ سرحد کی مستقل حد بندی بھی کرانا چاہتی تھی جسے ماضی کی افغان حکومتوں نے ہمیشہ مسترد کیا تھا۔
اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد اپنی حکومت تشکیل دینے کے بعد انہوں نے بھی پاکستانی حکومت کے باڑ لگانے کے فیصلے کی مخالفت کرنا شروع کی۔ صرف سنہ 2022 میں چمن سرحد پانچ مرتبہ باڑ کی وجہ سے پیدا ہونے والی سرحدی تنازعات کی وجہ سے بند رہی۔
ویش منڈی کی اہمیت
چمن کی ویش منڈی کا علاقہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم کی طرح ایک اہم تجارتی گزرگاہ ہے جو افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار اور جنوب مغربی صوبوں کو پاکستان سے جوڑتی ہے۔
طورخم کی طرح یہاں سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان روزانہ لوگوں اور گاڑیوں کی بڑی تعداد کی آمدو رفت ہوتی ہے۔
بلوچستان کے سات اضلاع کی افغانستان کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں جن میں ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، قلعہ عبد اللہ، چمن، نوشکی اور چاغی شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان میں سے چار اضلاع پشین، قلعہ عبد اللہ، چمن اور نوشکی کی سرحدیں افغانستان کے صوبے قندھار سے متصل ہیں۔ ان تمام اضلاع سے لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے لیکن سب سے بڑی گزرگاہ ضلع چمن سے متصل ویش منڈی ہے۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ نامی معاہدے کے تحت کراچی کی بندرگاہ سے افغانستان کے لیے گاڑیاں اور دوسری غیر ملکی اشیا آتی ہیں جنہیں پاک افغان سرحد پار کرنے کے بعد ویش منڈی میں رکھا جاتا ہے۔
ویش منڈی کے باعث بلوچستان کے سرحدی شہر چمن سے روزانہ ہزاروں پاکستانی تاجر اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کی بھی آمد و رفت ہوتی ہے۔
فروری میں چمن سرحدی گیٹ کے ایک دورے کے دوران سرحد پر تعینات پاکستانی حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ روزانہ اس سرحد سے 25 ہزار کے لگ بھگ افراد سرحد پار کرتے ہیں جن میں اکثریت چمن اور قلعہ عبداللہ کے رہائشیوں کی ہے۔
اُن کے بقول یہ لوگ اپنی گاڑیاں چمن کے سرحدی دروازے کے قریب پارک کر کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پر چمن یا قلعہ عبداللہ کا پتا دکھا کر ویش منڈی یا قندھار کے دیگر علاقوں میں کاروبار یا رشتہ داروں سے ملنے جاتے ہیں۔
'یہ ریاست کا فیصلہ ہے'
چمن سے تعلق رکھنے والے تقریباً 10 سے 12 ہزار پاکستانی شہریوں کی سپن بولدک میں دکانیں، موٹر شوروم اور گودام ہیں یا وہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ یہ لوگ روزانہ صبح افغانستان جاتے اور شام کو پانچ بجے سرحد بند ہونے سے پہلے پہلے واپس پاکستان آ جاتے ہیں۔
اسی طرح قندھار کے سرکاری دستاویز پر افغان شہری بھی چمن اور قلعہ عبداللہ کی حدود تک داخل ہو سکتے تھے۔ پاکستانی حکام کا مؤقف ہے کہ سرحد پر رہنے والے قبائل کو سرحد پار آمدروفت کے لیے دی جانے والی رعایت کا غلط استعمال کیا جا رہا تھا۔
پاکستانی حکام کا یہ الزام رہا ہے کہ اس آڑ میں افغانستان کے باقی علاقوں کے لوگ بھی غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو رہے تھے جس کا دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے تھے۔
بلوچستان کے نگراں وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرحدوں پر ’ون ڈاکومنٹ پالیسی‘ لاگو کرنا پاکستانی ریاست کا فیصلہ ہے اور پاکستان کے تمام کی تمام سرحدی گزرگاہوں پر آمدروفت پاسپورٹ ہی سے منسلک ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چمن اور قلعہ عبداللہ کے پاسپورٹ دفاتر پوری طرح سے فعال ہیں جہاں سینکڑوں شہریوں کو پاسپورٹس اور پاسپورٹ ٹوکنز جاری ہو چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کوئی بنانا ریاست نہیں ہے اسی لیے کسی بھی پاکستانی اور افغان باشندے کو پاسپورٹ سے استثنیٰ حاصل نہیں۔‘‘
ماضی میں بھی چمن کے عوام اور تاجر سیاسی جماعتوں کی مدد سے پاکستانی حکومت کے سرحد بند کرنے اور سرحد پار کرنے میں سختی کرنے کے خلاف دھرنے دے چکے ہیں۔