دھرنے کے بعد اٹھنے والے سوال

فائل

ناقدین کا کہنا ہے کہ شدت پسند گروہوں کے لیے اپنے جائز و ناجائز مطالبے منوانے کا راستہ کھل جائے گا، جن کے پاس دو تین ہزار کے جتھے ہیں۔

اسلام آباد کا دھرنا بالآخر تین ہفتے بعد ختم ہوگیا۔ لیکن، ختم ہوتے ہوتے اپنے پیچھے کئی کہانیاں بھی چھوڑ گیا ہے۔ ان کہانیوں میں سے ایک اہم کہانی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تقریباً 30 سیکنڈ کی وہ ویڈیو فوٹیج ہے جس میں فوجی وردی میں ملبوس ایک عہدے دار کو احتجاجی مظاہرین میں لفافے تقسیم کرتا دکھایا گیا ہے۔

فوٹیج میں ایک شخص لفافه لینے میں قدرے ہچکچاہٹ ظاہر کرتا ہے تو فوجی عہدے دار کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ’’یہ ہماری طرف سے ہے۔ کیا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں‘‘۔ پھر کسی شخص کی جانب سے پوچھا جاتا ہے کہ ’’اس میں کتنے پیسے ہیں‘‘ تو بتایا جاتا ہے کہ ’’ہزار ہزار روپے ہیں‘‘۔ پھر ایک کارکن غالباً گرفتار کارکنوں کا ذکر کرتا ہے جس کے جواب میں عہدے دار کہتے ہیں کہ ’’ہم سب کو چھڑوائیں گے‘‘۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے نے بتایا ہے کہ مظاہرین میں لفافے تقسیم کرنے والے ’’پنجاب رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل اظہر نوید تھے اور وہ تحریک لبیک یا رسول اللہ کے ان کارکنوں میں ایک ایک ہزار روپے کے لفافے تقسیم کر رہے تھے، جنہیں حکومت اور احتجاجي مظاہرین کے راہنماؤں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت رہا کیا گیا تھا‘‘۔

تحریک لبیک یا رسول اللہ کے راہنماؤں اور کارکنوں نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دے کر دونوں جڑواں شہروں کے لوگوں کی آمد و رفت کو روک کر روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کر دیا تھا۔ مظاہرین کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی رہی۔ لیکن، حکومت شديد عوامی دباؤ کے باوجود ان کے خلاف کارروائی کرنے سے احتراز کرتی رہی اور حکومتی عہدے دار ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ کہتے رہے کہ دھرنے کو منتشر کرنے کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں، کیونکہ، بقول حکومتی اہل کار ’’دھرنے والوں کو حکومتیں الٹنے اور بنانے والوں کی پشت پناہی حاصل ہے‘‘۔

دھرنے کے قائد خادم حسین رضوی نے ایک غیر ملکی میڈیا چینل کو ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ، بقول اُن کے ’’فوج ہمیں فیض آباد سے ہٹانے کے لیے نہیں آئے گی۔’’

اور پھر یہی ہوا، جب دھرنے والوں کے خلاف انتظامیہ کا آپریشن ناکام ہوا تو وفاقی حکومت نے آئین کے تحت فوج کو طلب کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، فوج نے حکم نامے پر کچھ وضاحتیں طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کی پابند ہے۔ لیکن، وہ اپنے لوگوں کے خلاف طاقت استعمال نہیں کرے گی۔

وزیر داخلہ احسن اقبال نے ایکشن شروع ہونے سے پہلے متعدد بار یہ کہا تھا کہ دھرنے کا مقام صرف تین گھنٹوں میں خالی کرایا جا سکتا ہے۔ لیکن، جب پولیس اور ایف سی کے ہزاروں اہل کاروں کی ناکامی کے بعد آپریشن ختم کرنا پڑا تو انہوں نے آپریشن کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ’’مقامی انتظامیہ نے یہ آپریشن اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر کیا۔ اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ انتظامیہ نے مجھ سے نہیں پوچھا‘‘۔

حکومتی عہدے داروں، سول انتظامیہ اور دھرنا قائدین کے درمیان فیض آباد خالی کرانے کے لیے مذاكرات کے کئی دور بے نتیجہ ثابت ہوئے کیونکہ دھرنے والے لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں تھے اور آخرکار فوج کی ثالثی میں معاہدہ انہی کی شرائط پر طے پایا۔ وزیر قانون کو فوری طور پر اپنے عہدے سے حکومت کے اس إصرار کے باوجود مستعفی ہونا پڑا کہ حلف نامے میں ختم نبوت سے متعلق شق میں تبدیلی کا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ محض ایک دفتری غلطی تھی۔

فوج کی ثالثی میں طے پانے والے سمجھوتے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آئینِ پاکستان کے تحت کسی آرمی افسر کا ثالث بننا کیسا ہے؟ کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آئین سے باہر ہیں؟ فوجی افسر ثالث کیسے بن سکتے ہیں؟ یہ تو لگ رہا ہے کہ دھرنا ان کے کہنے پر ہوا۔ ریاست کے ساتھ کب تک ایسے چلتا رہے گا؟‘‘ ہائی کورٹ کے اس سوال کا جواب شاید کوئی نہیں دے گا۔

دھرنے والوں نے جہاں مذہب کے نام لوگوں کے جذبات بھڑکائے اور گالی گلوچ کے کلچر کو متعارف کرایا۔ سوشل میڈیا پر جرمنی کے ایک نوجوان کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں اس نے وفاقی وزیر داخلہ کو ہلاک کرنے والے کو 10 لاکھ روپے انعام دینے کی پیش کش کی ہے۔ اس کا ذکر وزیر داخلہ نے ہائی کورٹ میں اپنی پیشی کے موقع پر بھی کیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے ایسے شدت پسند گروہوں کے لیے اپنے جائز و ناجائز مطالبے منوانے کا راستہ کھل جائے گا، جن کے پاس دو تین ہزار کے جتھے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

تاہم، دھرنا ختم ہونے پر اسلام آباد اور راولپنڈی کے زیادہ تر شہریوں نے اطمینان کا سانس لیا ہے۔ دھرنے کے دوران گرفتاری کے بعد رہا ہونے والے افراد کو ڈی جی رینجرز کی طرف سے ایک ہزار روپے ملنے کے حوالے سے اسلام آباد میں تعمیرات کے کاروبار سے منسلک سید ناصر شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’دھرنے میں آنے والے زیادہ تر لوگ وہ تھے جو مذہبی جذبے سے سرشار تھے، ان میں زیادہ تر غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔ لہذا، اگر ان کے سفری اخراجات کے لیے کوئی رقم دی گئی تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے‘‘۔

راولپنڈی کے وقاص علی نے کہا کہ اس دھرنا کے دوران21 دن جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن، اس کے باوجود خوشی ہے کہ شہر میں امن تو ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈی جی رینجرز نے اچھی سوچ کے ساتھ رقم دی ہوگی۔ لیکن، آیا یہ رقم سرکاری خزانے سے تھی یا انہوں نے خود ادا کی، اس کی وضاحت ہونا اچھی بات ہے‘‘۔

سوشل میڈیا پر زوہیب مجید نے لکھا ہے کہ ’’ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے جہاں انتہاپسندوں کو نوازا جاتا ہے، جب کہ انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والوں کو لاپتا کر دیا جاتا ہے‘‘۔