زلزلہ زدہ علاقوں کا ماحول کیسا ہوتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں لیکن متاثرہ خطے میں زندگیاں گزارنے والوں کے حالات مفروضوں اور اندازوں سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہیں۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے میرپور سے ذرا آگے سانگ کیکری موہڑاں نامی علاقہ بھی ایسا ہی آفت زدہ علاقہ ہے جو 24 ستمبر کو زلزلے کی زد میں آیا تھا۔
سانگ کیکری آنے والوں کو دور سے ہی تباہ شدہ پل اور گرے ہوئے مکانات دکھائی دینے لگتے ہیں۔
زلزلے کو تین روز گزرنے کے بعد بھی علاقے میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔ البتہ وقفے وقفے سے آنے والے آفٹر شاکس کی دہشت علاقہ مکینوں کے چہرے سے عیاں ہے۔
اونچی نیچی اور بل کھاتی گلیوں میں گرے ہوئے مکانوں میں سے ایک مکان کے سامنے بشارت علی اکیلے بیٹھے ہوئے تھے اور ایک کرسی پر بمشکل خود کو سنبھالے ہوئے تھے۔
انہوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی ٹیم کو دیکھا تو مخاطب ہوئے کہ 'کچھ نہیں بچا۔'
بعد ازاں انہوں نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ 24 ستمبر کی شام وہ اپنے مکان کے عقبی حصّے میں تھے کہ اچانک زمین ہلنے لگی۔
بشارت کا کہنا تھا کہ گھر میں ان کے علاوہ ان کی اہلیہ، بھابھی اور چار بچے تھے۔
ان کے بقول، انہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ وہ اہل خانہ کو جلد از جلد گھر سے نکال لیں۔
بشارت علی نے بتایا کہ انہوں نے جلدی جلدی اپنے گھر والوں کو باہر نکالا جس سے سب کی جان بچ گئی لیکن بشارت پیچھے رہ گئے اور مکان کا ایک دروازہ ان کی ٹانگ پر گرا جس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئے۔
بشارت علی کے بقول جب انہیں ہوش آیا تو ان کی ٹانگ بری طرح زخمی تھی۔
بشارت علی کو اس بات کی فکر زیادہ ہے کہ ان کا مکان تباہ ہو گیا ہے اور رہنے کے قابل نہیں رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یومیہ مزدوری پر کام کرتے تھے، اس لیے ان کی سب سے بڑی پریشانی یہی ہے کہ ان کے گھر والے کب تک دوسرے رشتہ داروں کے پاس رہیں گے اور ان کا مستقبل کیا ہوگا؟
سانگ کیکری کے علاقے میں زلزلے سے اب تک 11 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
زلزلے کے بعد آفٹر شاکس کی وجہ سے گزشتہ روز (جمعرات کو) بھی ایک پانچ منزلہ عمارت زمین بوس ہو گئی۔ جس کی وجہ سے علاقے میں خوف کی فضا بدستور قائم ہے۔
یہاں امدادی کاموں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور ریلیف کیمپس بھی قائم کیے جا چکے ہیں۔
ریلیف کیمپ کے راستے میں طیب حسین نامی ایک نوجوان اپنے تباہ شدہ مکان کی اینٹوں میں کچھ تلاش کر رہے تھے۔
طیب حسین کا کہنا تھا کہ اس کے سب گھر والے تو کہیں اور منتقل ہو چکے ہیں لیکن اسے مکان کے آس پاس ہی رہنا ہے تاکہ ملبے سے جو چند قابلِ استعمال چیزیں مل سکتی ہیں انہیں محفوظ کر لیا جائے۔
طیب نے مزید کہا کہ امدادی کام تو ہو رہے ہیں لیکن صرف ایک ٹینٹ میں خاندان کے کتنے افراد سو سکتے ہیں؟
ان کے گلے شکوے انتظامیہ اور حکمرانوں سے تھے جو طیب کے بقول صرف 'خانہ پری‘ کے لیے علاقے کا چکر لگا رہے تھے۔
طیب نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آگے چونکہ گلی جگہ جگہ سے اکھڑ چکی ہے لہٰذا احتیاط سے چلنا ہوگا۔
تباہ حال راستوں اور گلیوں سے نکل کر کھیتوں کی طرف بھی کئی خاندان اپنے گھروں کا بچا کچھا سامان سمیٹ رہے تھے۔
راستے میں موجود رضوانہ نامی مقامی خاتون کا کہنا تھا کہ اس کا پورا مکان چند سیکنڈز میں زمین بوس ہوگیا۔ وہ بمشکل اپنے بچوں کو بچا کر باہر نکل سکی لیکن اس سب کے دوران اس کے ’بابا‘ نہیں بچ سکے جو گھر کی دیوار کے قریب کھڑے تھے۔
ان کا شکوہ تھا کہ امدادی ٹیمیں علاقے میں پہنچ چکی ہیں اس کے باوجود ان کی مشکلات میں کمی نہیں ہو رہی۔
اسی دوران رضوانہ کے بیٹے اور شوہر بچ جانے والا کچھ گھریلو سامان کندھوں پر ڈالے کیمپوں کی طرف جانے لگے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکومت کی جانب سے لگائے گئے امدادی کیمپوں میں دو خاندانوں کے کچھ افراد بیٹھے تھے جن میں سے ایک معمّر شخص کا نام محمّد خان تھا۔ ان کے پوتے، پوتیاں اور بہو بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔
محمّد خان کا کہنا تھا کہ زلزلے کی صورت میں ایک قیامت ان پر سے گزر گئی۔ چند لمحوں میں ہی گاؤں نے ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ اب پہچان میں نہیں آ رہا۔
محمّد خان امدادی کاموں سے مطمئن تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر سویلین اور فوجی اہلکار ان کی مدد کو نہ پہنچتے تو شاید وہ بھی خاندان کے کسی فرد سے محروم ہو سکتے تھے۔
اس سوال کے جواب میں کہ اب وہ مکان دوبارہ بنانے کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں، محمّد خان گہری سوچ میں پڑ گئے۔
انہوں نے کہا کہ گاؤں میں لوگوں کا نقصان کروڑوں روپے میں ہوا ہوگا۔ اب سردیوں کا موسم بھی قریب ہے۔ اگر لوگوں کے مکانات وقت پر تعمیر نہ ہوئے تو یہ زلزلے سے بھی بڑا مسئلہ بن جائے گا۔
وائس آف امریکہ کی ٹیم واپس مرکزی سڑک کی طرف آئی جہاں فلاحی ادارے اور فوجی امدادی کیمپوں میں بہت سے عمر رسیدہ افراد لائے جارہے تھے۔
شدید حبس، بجلی کی بندش اور پانی کی کمی نے ان سب کو نڈھال کیا ہوا تھا۔
تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایمولینسز کے سائرن سنائی دیتے تو لوگ انہیں راستہ دینے کے لیے پگڈنڈیوں پر چڑھ جاتے تھے۔
جو لوگ سلامت تھے وہ بیماروں کی دیکھ بھال اور ٹوٹے گھروں کے پہرے دے رہے تھے۔ جو اس قابل نہیں تھے وہ امدادی ٹیموں کے ساتھ اسپتالوں میں بھیجے جارہے تھے۔