بھارتی کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے تین برس مکمل، کیا کچھ بدلا؟

سری نگر، فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم ہونے کے تین برس مکمل ہو چکے ہیں۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کشمیر کے حالات میں بہتری کے دعوے کر رہی ہے جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ کشمیر کی صورتِ حال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔

خیال رہے کہ پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر کے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر تے ہوئے اسے یونین میں ضم کر لیا تھا۔ اس اقدام پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا تھا جب کہ بھارتی کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھی اس اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

پانچ اگست کے بعد بھارتی کشمیر کی کایا پلٹ گئی

جموں و کشمیر کہلانے والے وفاق کے زیرِ انتظام علاقے یا یونین ٹیریٹری کے سربراہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے جمعرات کو دو الگ الگ تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جموں و کشمیر تعمیر و ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ صنعت و حرفت پھل پھول رہی ہیں، کسانوں کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے اور وہ خوش ہیں، سیاحت کا شعبہ بھی ترقی کر رہا ہے۔

منوج سنہا کا کہنا تھا کہ اس ساری صورتِ حال کے باوجود کچھ عناصر اس سے خوش نہیں ہیں اور وہ کشمیر ی نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی روش پر قائم ہیں اور اُنہیں بندوق اُٹھانے پر اُکسا رہے ہیں۔

بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کے دعووؤں کی توثیق کرتی ہے۔

پارٹی کے جموں و کشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یہاں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا گیا ہے۔

اُن کے بقول پہلے یہاں ریاستی اسمبلی کے لیے 87 اراکین منتخب کیے جاتے تھے، لیکن اب بلدیاتی اداروں کے باعث کم و بیش 35 ہزار منتخب نمائندے عوامی خدمت پر مامور ہیں۔

'اپوزیشن سرکاری دعووؤں کو سراب قرار دیتی ہے'

لیکن سابق وزیرِ اعلیٰ اور حزبِِ اختلاف کی ایک بڑی علاقائی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی ان دعووؤں کو محض فریب قرار دیتی ہیں۔

اُن کے بقول بھارتی حکومت کے یہ دعوے بھارتی عوام اور بین الاقوامی برادری کو دھوکہ دینے اورانہیں جموں و کشمیر کے زمینی حقائق سے بے خبر رکھنے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ پانچ اگست 2019 اور اس کے بعد سے جو اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں، ان کا مقصد نہ صرف جموں و کشمیر کے عوام کو بے اختیار کرنا ہے بلکہ یہاں جمہوریت کی جڑوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

'پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی امید نہیں'

تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ پانچ اگست کے اقدامات سے ریاست میں منفی اثرات مرتب ہوئے۔

وائس آٖف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ان اقدامات نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مزید سرد مہری پیدا کی اور مستقبل قریب میں دونوں ملکوں کے درمیان سمجھوتے کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔

نور احمد بابا کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کے دعووؤں کے باوجود پانچ اگست کے بعد سے ہی کشمیر میں جمہوریت مکمل طور پر غائب ہے۔

اُن کے بقول کشمیر کی آزادی، خود مختاری کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعتوں کی خواہشات اب محض سراب بن کر رہ گئی ہیں۔ دوسری جانب کشمیر پر پاکستان سے مذاکرات کی بحالی اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات حل کرنے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر میں اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان نے ردِعمل کے طور پر بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کمی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے نئی دہلی میں تعینات اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلایا تھا۔ اسلام آباد میں ان کے ہم منصب کو بھارت لوٹنے کے لیے کہا تھا اور دو طرفہ تجارت کو معطل کیا تھا۔

بھارت نے پاکستان کی طرف سے دو طرفہ تعلقا ت کے بارے میں ان اقدامات کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک افسوسناک پہلو ہے جس پر پڑوسی ملک کو نظر ِثانی کرنی چاہیے۔

نئی دہلی میں وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر کے خصوصی درجے سے متعلق آئینِ ہندکی دفعہ 370 کے بارے میں اٹھایا گیا قدم مکمل طور پر بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔"

جمعرات کو بھارت کے وزیرِ مملکت برائے اُمورِ خارجہ مرالی دھرن نے بھارتی ایوانِ بالا راجیہ سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تجارت کی بحالی میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔

اُن کے بقول ستمبر 2019 میں پاکستان نے پابندی میں کچھ نرمی کرتے ہوئے کچھ ادوایات بھارت سے منگوانے کی اجازت دی تھی جس کے بعد سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔


بلاول بھٹو زرداری کا بھارت پر جموں و کشمیر کی آبادیات کو تبدیل کرنے کا الزام

جمعے کو پاکستان میں کشمیری عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے 'یومِ استحصال کشمیر' منایا گیا۔

اسی مناسبت سے اپنے پیغام میں وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے الزام عائد کیا کہ بھارت کشمیر کی آبادیات کو تبدیل کرنے کی کوشش کے طور پر وہاں یکطرفہ اقدامات کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا " گزشتہ تین برس کے دوران پیش آنے والے واقعات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ بھارت جموں و کشمیر کی آبادیات کو تبدیل کرنےکے اپنے ناپاک منصوبے کو پایہؐ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بے لگام کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس حوالے سے پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھی ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ تین برس کے دوران بھارتی سیکیورٹی فورسز نے 660 کشمیریوں کو ہلاک کیا۔ ترجمان نے بھارت میں ماورائے عدالت ہلاکتوں اور تشدد پر بھی اظہارِ تشویش کیا تھا۔

پاکستان کا ان تین برسوں میں یہ بھی مؤقف رہا ہے کہ بھارتی کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں جب کہ صحافیوں کو بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

بھارتی حکومت نے تاحال پاکستان کے وزیرِ خارجہ اور دفترِ خارجہ کے ترجمان کے ان بیانات پر کوئی ردِِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے ۔ تاہم بی جے پی کے لیڈررویندر رینہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ یہ الزام کہ بھارت جموں و کشمیر کی آبادیات کو تبدیل کرکے اس کی مسلم اکثریتی حیثیت کو بدلنا چاہتا ہے محض ایک بھونڈا پروپیگنڈا ہے۔

استصوابِِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں جمود کا شکار

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان جمو ں و کشمیر کے اندر سرگرم جن سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو اپنا ہمنوا سمجھتا تھا وہ پانچ اگست 2019 کے بعد سے جمود کاشکار ہیں۔

لیکن استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس کے ایک سینئر لیڈر مسرور عباس انصاری کہتے ہیں کہ کشمیری پاکستان کی نہیں اپنی جنگ لڑرہے ہیں لیکن اس وقت بے پناہ فوجی دباؤ اور دوسرے انتظامی اقدامات کی وجہ سے دبے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد یہاں سیاسی اسپیس مکمل طور پر سکڑ کر رہ گئی ہے۔ یہاں کے مین اسٹریم سیاست دانوں کو جو بھارت کے ساتھ جموں و کشمیر کے الحاق کی توثیق کرتے ہیں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی اجازت نہیں۔

عسکریت پسندی اب بھی ایک بڑا چیلنج: پولیس سربراہ کا اعتراف

سرینگر میں پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ پانچ اگست 2019 سے لے کر اب تک جموں و کشمیر میں 174 سیکیورٹی اہلکار اور 110 عام شہری تشدد کی نذر ہو کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

علاقے کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا کہ اگرچہ اس دوران پانچ سو سے زائد عسکریت پسند وں کو بھی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلوں میں ہلاک کیا ہے، لیکن عسکریت پسندی اب بھی کشمیر میں ایک بڑا چیلنج ہے۔