طالبان حکومت کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی نے اب تک ان الزامات کا جواب نہیں دیا کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کابل میں ان کی حفاظت میں قیام پذیر تھے۔ امریکی ڈرون حملے میں الظواہری کی ہلاکت کی خبر آنے کے بعد سے سراج الدین حقانی منظر سے غائب ہیں۔
امریکہ نے 42 سالہ سراج الدین حقانی کے سر کی قیمت 10 ملین ڈالر رکھی ہے جب کہ حقانی گروپ اپنی مبینہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کی بنا پر طالبان تحریک کے اندر ایک طاقت ور دھڑے کی حیثیت رکھتا ہے۔
سراج الدین حقانی اپنے خاندان کے واحد ایسے شخص نہیں جنہیں عالمی دہشت گرد نامزد کیا گیا ہے۔ اُن کے چچا خلیل حقانی، جو طالبان کابینہ میں وزیر بھی ہیں اور ان کے چھوٹے بھائی عزیز حقانی پر بھی، امریکہ کی جانب سے ایسی معلومات کی فراہمی پر پانچ پانچ ملین ڈالر کا انعام مقرر ہے جس سے ان کی گرفتاری میں مدد مل سکے۔
اسی طرح سراج الدین حقانی کے قریبی ساتھی اور بہنوئی یحییٰ حقانی کو بھی امریکی حکومت نے فروری 2014 میں عالمی دہشت گرد نامزد کیا تھا، تاہم ان کی گرفتاری میں مدد کے سلسلے میں کوئی مالی انعام مقرر نہیں۔
حقانی خاندان کے یہ افراد گزشتہ کئی برسوں کے دوران افغانستان میں سلسلے وار دہشت گرد انہ حملے کرنے اور انہیں منظم کرنے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزامات میں مطلوب ہیں۔
سراج الدین حقانی پر الزام ہے کہ انہوں نے 14 جنوری 2008 کو کابل کے سرینا ہوٹل پر ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں ایک امریکی شہری تھور ڈیوڈ ہیسلا سمیت چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جس کے بعد مارچ 2008 میں امریکی محکمۂ خارجہ نے سراج الدین حقانی کو خصوصی طور پر عالمی دہشت گرد نامزد کرد یا تھا۔
اسی طرح فروری 2008 میں خلیل حقانی کو بھی عالمی دہشت گرد نامزد کیا گیا تھا۔ان پر دیگر دہشت گردانہ سرگرمیوں سمیت افغانستان میں القاعدہ کے کارندوں کو جنگجو، ہتھیاراور مالی وسائل کی فراہمی میں مدد دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔
گزشتہ اگست تک، جب تک طالبان نے کابل پر قبضہ نہیں کیا، حقانی اتنے خفیہ طریقے سے زندگی بسر کر رہے تھے کہ سراج الدین اور خلیل حقانی کی کوئی تصویر بھی دستیاب نہیں تھی۔لیکن افغانستان سے امریکی فوجی انخلا اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ دونوں شخصیات ملک کو 'بیرونی قبضے' سے آزاد کرانے والوں کے طور پر کیمروں کے سامنے فخریہ انداز میں آتی رہی ہیں۔
کیا حقانی دوبارہ زیر زمین چلے گئے ہیں؟
افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر رحمت اللہ نیبل کا کہنا ہے کہ سراج الدین حقانی سمیت حقانی نیٹ ورک کے کئی رہنما، الظواہری کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد کابل چھوڑ کر جنوب مغربی افغانستان میں اپنے پوشیدہ ٹھکانوں میں واپس چلے گئے ہیں۔
نبیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سراج الدین حقانی کو آخری بار یکم اگست کو طالبان کی وزارت داخلہ کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کردہ مختصر ویڈیوز میں دیکھا گیا تھا جس میں وہ افغانستان کے صوبہ پکتیا کے دیہی علاقوں میں لوگوں سے ملاقات اور بات چیت کرتے ہوئے نظر آ ئے۔
افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق عہدے دار نبیل کہتے ہیں کہ " الظواہری پر حملے کے بعد سراج الدین حقانی پکتیا چلے گئے اور ان کے تمام قریبی ساتھی بھی روپوش ہو گئے ہیں۔ اب وہ وزارت داخلہ میں نظر نہیں آ رہے۔ سراج الدین حقانی اس حملے سے پہلے اور بعد میں اپنی پالیسیوں اور روابط کی بنا پر خوف زدہ ہیں۔"
طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں کابل کے مرکزی حصے میں الظواہری کی رہائش گاہ کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ جب کہ دلچسپ بات یہ کہ الظواہری کا خاندان جس عمارت میں رہ رہا تھا وہ طالبان کی انٹیلی جنس ایجنسی سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے۔
امریکی حکام ایمن الظواہری سے لاعلمی سے متعلق طالبان کے دعوے سے اختلاف کرتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی سے جب صحافیوں نے پوچھا کہ آیا طالبان کو کابل میں الظواہری کی موجودگی کا علم تھا؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کے سینئر ارکان الظواہری کی موجودگی سے باخبر تھے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کو ایک بار پھر افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردوں کا مرکز بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
جان کربی نے منگل کو کہا تھا کہ "اگر ہمارے پاس قابل اعتماد شواہد ہوئے کہ کوئی دہشت گرد افغانستان میں یا کہیں اور کام کر رہا ہے، تو امریکی صدر اس ملک اور امریکی عوام کے دفاع کے لیے کارروائی کریں گے۔"
وائس آف امریکہ نے پوچھا کہ آیا وائٹ ہاؤس اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کے نزدیک حقانی نیٹ ورک کے رہنما امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے اہداف پر پورے اترتے ہیں؟ جس پر وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ سردست ان کے پاس اس بارے میں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
تاہم سابق افغان انٹیلی جنس عہدے دار رحمت اللہ نبیل کا کہنا تھا کہ حقانی امریکی ٹارگٹ لسٹ میں آ سکتے ہیں۔واضح رہے کہ نبیل امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ قریبی کام کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے، خاص طور پر حقانیوں کے دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ روابط کی جو سطح ہے اورجو نہ ٹوٹنے والے تعلقات ہیں، اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکہ انہیں نشانہ بنائے گااور اس سے سراج حقانی بھی مستثنیٰ نہیں ہوں گے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ نے گزشتہ ایک سال کے دوران طالبان کے اہداف کو اپنا نشانہ نہیں بنایا۔ جب کہ 2016 میں طالبان کے سابق رہنما ملا اختر منصور افغان سرحد کے قریب پاکستان کے جنوب مغربی علاقے میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
ریکارڈو ویلے، افغانستان اور پاکستان میں جہادیت اور سلامتی امور کے ایک آزاد محقق ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ امریکہ قریبی عرصے میں طالبان قیادت کے خلاف کوئی حملہ کرے گا ، کیوں کہ ایسا کرنا خطے میں امریکہ کی موجودہ پالیسی کے مفادات کے خلاف ہے۔ امریکہ کی پالیسی ان دہشت گرد گروپس کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے تک محدود ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان نے کابل میں الظواہری کو پناہ دے کر دوحہ معاہدے میں اپنے اس وعدے کی خلاف ورزی کی کہ وہ القاعدہ کے ارکان سمیت کسی بھی دہشت گرد گروہ یا فرد کو افغانستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
امریکی حکام نے طالبان، خاص طور پر حقانی نیٹ ورک پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے الظواہری کو کابل میں قیام کی اجازت دے کر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ یہ چیز سراج الدین حقانی اور اس کے اعلیٰ ساتھیوں کے خلاف امریکی دہشت گردی کے مقدمے میں ایک اور عنصر کا اضافہ ہے۔