رپورٹر ڈائری؛ 'زمان پارک کے مرشد چوک میں بھی اب سناٹا ہے'

سابق وزیرِ اعظم عمران خان القادر ٹرسٹ کیس سمیت دیگر کیسز میں ضمانت ملنے کے بعد چند روز سے زمان پارک لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر ہی موجود ہیں۔

زمان پارک میں کچھ روز قبل تک ٹکٹ کے خواہش مندوں کے خیمے لگے تھے جب کہ پارٹی رہنماؤں کی بھی آمدورفت جاری رہتی تھی۔ لیکن نو مئی کو ہونے والی ہنگامہ آرائی کےنتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد اب زمان پارک میں سناٹے کا راج ہے۔

عمران خان اِن دِنوں زمان پارک میں اپنی اہلیہ بشرٰی بی بی کے ساتھ مقیم ہیں۔

بطور صحافی اپنے صحافتی فرائض کے سبب متعدد بار زمان پارک جانے کا موقع ملا۔ جمعے کی صبح بھی زمان پارک پہنچا تو کچھ ہی دیر میں عمران خان اپنے گھر سے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے لیے روانہ ہوئے۔ صحافیوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ لیکن اُن کے ذاتی محافظوں نے کسی کو بھی اُن کی گاڑی کے قریب نہیں آنے دیا۔


عمران خان کے جانے کے بعد میں سوچتا رہا کہ آج کل عمران خان اکیلے کیوں جا رہے ہیں، ماضی میں وہ لاہور اور اسلام آباد کی عدالتوں میں پیشی کے لیے پارٹی کے دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ ایک قافلے کی صورت میں جایا کرتے تھے۔ ابھی چند دِن پہلے کی بات ہے کہ عمران خان کے گھر کے چاروں اطراف بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے کارکن ہر وقت موجود رہتے تھے جن کا کھانا پینا وہیں ہوتا تھا۔

اِسی طرح کینال روڈ پر مال روڈ انڈر پاس سے لے کر دھرم پورہ انڈر پاس تک یہ تقریبا ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے۔ سٹرک کے ایک جانب پی ٹی آئی کے رہنماوں اور ٹکٹ کے امیدواروں کے باقاعدہ کیمپ لگے ہوئے تھے جہاں باقاعدہ ایک خیمہ بستی آباد تھی۔

ہر امیدوار کے لوگ زمین پر اور چارپائیوں پر اِن خیمہ بستیوں میں رہتے تھے جہاں پر ہر کیمپ میں پارٹی کا رہنما وہاں رہنے والے لوگوں کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرتا تھا۔ اِسی جگہ پر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اجتماعی طور پر سب کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کیا کرتے تھے جہاں پر کھانا کھلانے کے لیے لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔

لاہور سے پی ٹی آئی کے ایک تاجر رہنما زمان پارک میں روزانہ کی بنیاد پر حلوہ پوری اور چنے کے ناشتے کا بندوبست کرتے تھے۔ یہ ناشتہ صبح سات بجے سے نو بجے تک جاری رہتا تھا۔ اِسی طرح کچھ لوگ وہاں باری باری رات کے کھانے کا بندوبست کرتے تھے۔

اِس مقصد کے لیے وہاں پر روٹیوں کے لیے عارضی تندور بھی لگائے تھے جس کے بعد کچھ لوگ رات کو چائے کا دور چلاتے تھے۔ پی ٹی آئی کے قصور کے ایک رہنما رات کو وہاں پر قصوری اندرسوں کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ اِسی طرح پی ٹی آئی کے خیبرپختونخوا سے رہنما کارکنوں کے لیے دودھ کی سبیل لگاتے تھے یہاں سے کسی کو بھی کھانے پینے کی اجازت تھی۔

لیکن آج وہ تمام خیمے خالی ہیں اور خیموں میں پڑا سامان بھی کارکن اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ زمان پارک میں عمران خان کے گھر سے چند گز کے فاصلے پر ایک گول باغیچہ ہے۔ جہاں پی ٹی آئی کے دوسرے صوبوں سے آئے کارکن ایک بڑے خیمے میں رہتے تھے جن کے لیے رفع حاجت اور غسل کے لیے عارضی غسل خانے اور واش رومز بنائے گئے تھے۔


پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنماؤں کی زمان پارک آمد ورفت کے باعث کینال روڈ پر اکثر ٹریفک بلاک ہو جایا کرتی تھی۔ حتٰی کہ ٹریفک کی روانی کے لیے ٹریفک پولیس اور لفٹر کی مدد لی جاتی تھی۔

صرف یہی نہیں نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد سے پی ٹی آئی کے سابق ارکانِ اسمبلی اور موجودہ ٹکٹ ہولڈر باری باری جماعت کو چھوڑ رہے ہیں اور اپنی نئی منزل کی تلاش میں ہیں۔

اِن افراد میں اکثریت اُن لوگوں کی ہے جن کو 2018 کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی میں شامل کرایا گیا تھا جس کے لیے پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر خان ترین کا جہاز استعمال ہوتا تھا۔

یوں پارٹی کو چھوڑ کر جانے والوں پر عمران خان نے بھی دکھ کا اظہار کیا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ اُن تمام لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو دباؤ کےتحت جماعت چھوڑ رہے ہیں اور اُن لوگوں کی ہمت کی بھی قدر کرتے ہیں جو مشکل وقت میں اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔


خیال رہے کہ پنجاب حکومت نے پولیس کی مدد سے تین روز سے زمان پارک کو جانے والے تمام راستے رکاوٹیں لگا کر عارضی طور پر بند کر رکھے ہیں۔ جہاں پر صرف صحافیوں، پولیس والوں، عمران خان کے وکلا اور زمان پارک کے رہائشی افراد کو جانے کی اجازت ہے۔

واضح رہے کہ پنجاب حکومت کا دعوٰیٰ ہے کہ زمان پارک میں فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے 40 مبینہ دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔

وزیرِ اطلاعات پنجاب عامر میر کے مطابق حکومت نے اِن افراد کو 17 مئی 2023 کو پولیس کے حوالے کرنے کے لیے 24 گھنٹوں کی مہلت دی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس کے بعد پولیس کارروائی کرے گی۔

جمعے کو ہی کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا کی سربراہی میں ایک حکومتی ٹیم نے زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کی جس میں ڈپٹی کمشنر لاہور رافیعہ حیدر، ڈی آئی جی صادق ڈوگر اور ایس ایس پی آپریشنز شامل تھے۔ حکومتی ٹیم عدالتی حکم پر عمران خان کے گھر پہنچی جنہوں نے عمران خان سے ملاقات کی اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا۔


یاد رہے یہ وہی زمان پارک ہے جہاں کبھی پولیس عدالتی احکامات کی وصولی کے لیے بھی آتی تھی تو پی ٹی آئی کے کارکنوں اور محافظوں کی جانب سے اُنہیں روک دیا جاتا تھا۔ اُن پر پتھر پھینکے جاتے تھے اور ڈنڈوں کا استعمال کیا جاتا تھا جس کے جواب میں پولیس کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کرتی تھی۔

عمران خان کے گھر کے باہر پی ٹی آئی کارکنوں نے خود سے ایک جگہ کو مرشد چوک کا نام دے دیا ہے۔ یہ مرشد چوک بھی اُسی وقت تک آباد تھا، جب تک پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ ٹکٹو ں کی تقسیم کے بعد مرشد تو وہی ہیں لیکن 'مریدین' غائب ہو گئے ہیں جس پر مجھے خواجہ حیدر علی آتش کی غزل کا ایک شعر کا مصرع یاد آیا کہ۔۔۔

زمینِ چمن گل کھاتی ہے کیا کیا

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے