|
ویب ڈیسک—پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے لیے اڈیالہ جیل میں سہولت کاری کے الزامات کی تحقیقات کے لیے مزید چھ جیل ملازمین کو حراست میں لے لیا ہے۔
حراست میں لیے جانے والوں میں تین خواتین بھی شامل ہیں جب کہ جیل ذرائع نے بتایا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے زیرِ حراست افراد کے موبائل فون بھی قبضے میں لے لیے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کو ذرائع نے تصدیق کی کہ حراست میں لیے گئے ملازمین میں سی سی ٹی وی کیمروں کی نگرانی پر مامور تین اہلکاروں کے علاوہ دو لیڈی وارڈز اور ایک سوئپر شامل ہیں۔
جیل ذرائع نے دعویٰ کیا کہ زیرِ حراست خواتین عملہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتا تھا۔
ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ یہ گرفتاری پہلے سے زیرِ حراست ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل محمد اکرم اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ بلال سے تفتیش کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی نگرانی کے لیے افرادی قوت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔
SEE ALSO: فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے: عمران خانوفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے 15 اگست کو اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل محمد اکرم کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جیل میں عمران خان کی سہولت کاری کی جا رہی تھی۔
محمد اکرم کو 20 جون کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور انہیں لاہور رپورٹ کرنے کا کہا گیا تھا جس کے بعد سے وہ اڈیالہ جیل کی کالونی میں موجود اپنی رہائش گاہ پر مقیم تھے۔
محمد اکرم گزشتہ 18 برس سے اڈیالہ جیل میں ہی تعینات تھے اور مختلف سیاسی شخصیات کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔
بعض سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ محمد اکرم پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری اور پنجاب کے سابق وزیر راجا بشارت کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔