|
امریکی وزیرخارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی سے متعلق امریکی حمایت والے مجوزہ معاہدے کو قبول کر لیا ہے ۔ انہوں نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ بھی اس تجویز کو قبول کرے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا، " وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ آج بہت تعمیری ملاقات رہی۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اسرائیل اختلافات کم کرنے والی تجویز کی حمایت کرتا ہے۔ اگلا اہم قدم یہ ہے کہ حماس بھی ہاں میں جواب دے۔"
تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس تجویز سے متعلق عسکریت پسند گروپ حماس کی شکایات کو دور کیا گیا ہے یا نہیں۔
بلنکن نے اس اعلان سے قبل پیر کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ڈھائی گھنٹے کی طویل ملاقات کی تھی۔ امریکہ، مصر اور قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان مجوزہ امن معاہدے پر مہینوں مل کر کام کیا ہے۔
بہر حال، بلنکن نے مزید کہا کہ اگر حماس تجویز کو قبول کر لیتا ہے، تو بھی مذاکرات کار آنے والے دنوں میں "معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے کسی واضح مفاہمت" پر کام کریں گے۔ انہوں نے بغیر کسی وضاحت کے کہا کہ اب بھی "پیچیدہ مسائل" باقی ہیں جن کے لیے "رہنماؤں کے سخت فیصلوں" کی ضرورت ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ اس کا یک ثالث کی حیثیت سے،امریکہ پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ وہ امریکی مذاکرات کاروں پر اسرائیل کا ساتھ دینے کا الزام لگاتا ہے۔ جس نے ایسے یہ نئے مطالبات کیے ہیں جنہیں عسکریت پسند گروپ مسترد کرتا ہے۔
بلنکن نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس تجویز میں غزہ کے اندر دو اسٹریٹجک راہداریوں پر کنٹرول کے لیے اسرائیل کے مطالبے پر توجہ دی گئی ہے، جس کیلئے حماس نے کہا ہے کہ یہ ایک نان اسٹارٹر ہے، یا ان دوسرے مسائل پر جنہوں نے طویل عرصے سے مذاکرات کو درہم برہم کر رکھا ہے۔
اس سے قبل اتوار کو خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے اطلاع دی تھی کہ امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اتوار کو اسرائیل کے شہر تل ابیب پہنچے ہیں۔
غزہ میں لگ بھگ 10 ماہ سے جاری لڑائی کے لیے جنگ بندی کی کوششوں میں نیہ ان کا نواں مشرقِ وسطیٰ کا دورہ ہے۔
وہ منگل کو مصر روانہ ہوں گے لیکن روانگی سے قبل پیر کو ان کی اسرائیل میں مذاکرات اور جنگ بندی کے حوالے سے اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں ہوں گی۔
جنگ بندی کی کوششیں
اسرائیل اور جنگ سے قبل غزہ کا انتظام سنبھالنے والی عسکری تنظیم حماس کے درمیان ثالثی کرنے والے تین ممالک امریکہ، مصر اور قطر نے جنگ بندی معاہدے کے لیے تجویز دی تھی کہ اسرائیلی فورسز غزہ میں زیادہ تر فوجی کارروائی روک دیں۔ تجویز میں یہ بھی شامل ہے کہ اسرائیلی جیلوں سے بڑی تعداد میں قیدی رہا کیے جائیں گے جس کے بدلے میں حماس اس کی تحویل میں موجود یرغمالوں کو رہا کر دے گی۔
'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ کے ہمراہ سفر کرنے والے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ اینٹنی بلنکن جنگ بندی کے مذاکرات کے انتہائی نازک مرحلے پر خطے کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کے بقول امریکی وزیرِ خارجہ فریقین پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ غزہ کے شہریوں کی مشکلات میں کمی کے لیے جلد از جلد اس کو تسلیم کریں۔
امریکی عہدیددار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ بلنکن کی کوشش ہے کہ یہ تنازع خطے تک نہ پھیلے۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ کے تل ابیب پہنچنے سے کچھ دیر قبل اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کابینہ کے ارکان کو آگاہ کیا کہ ایسے علاقے موجود ہیں جہاں اسرائیل لچک کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ دورے میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے علاوہ وزیرِ دفاع یوو گلینٹ اور صدر آئزک یرزوگ سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
دوسری جانب اسرائیل کی غزہ میں فوجی کارروائیاں جاری ہیں جس میں مزید اموات ہوئی ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے یہ کارروائیاں ایسے وقت میں کی گئی ہیں جب امریکہ، قطر اور مصر جلد جنگ بندی معاہدے کی کامیابی کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے مابین ثالثی کا مقصد متعدد اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کو محفوظ بنانا اور غزہ میں تباہی پھیلانے والی جنگ کو روکنا ہے جس میں غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 40 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
مذاکرات کا مقصد علاقائی کشیدگی کو کم کرنا بھی ہے جس میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ایران میں اور حزب اللہ کے رہنما کی لبنان کے دارالحکومت بیروت میں حالیہ ہلاکتوں کے بعد اضافہ ہوا ہے۔
ایران نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے جب کہ حزب اللہ نے بھی اسرائیل کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لانے کا عندیہ دیا ہے۔
واضح رہے کہ خطے میں یہ کشیدگی ایسے موقع پر بڑھ رہی ہے جب غزہ میں جنگ کا گیارھواں ماہ جاری ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازع گزشتہ برس سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیلی علاقوں پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوا تھا۔
حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں فوجی اہلکاروں سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔
حماس نے حملے میں لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے 100 سے زائد افراد کو نومبر 2023 میں کچھ دن کی عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق 100 کے قریب افراد اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں جب کہ ممکنہ طور پر 40 کے قریب یرغمالوں کی اموات ہو چکی ہے۔
اسرائیل نے حماس کے حملے کے فوری بعد غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور بمباری شروع کر دی تھی۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں لگ بھگ 40 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔
(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)