بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے اور ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے چھ ارکان کی دو ہفتوں کے دوران جیل میں موت ہوئی ہے۔
یہ چھ افراد بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی، یا بی این پی کے ان ہزاروں رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل تھے، جنہیں 7 جنوری کو ہونے والے اگلے عام انتخابات سے قبل اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
بی این پی کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری جنرل روح الکبیر رضوی نے وی او اے کو بتایا کہ پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو پولیس کی طرف سے اٹھائے جانے کے بعد "غیر انسانی سطح پر تشدد" کا سامنا ہے۔
رضوی نے کہا، "انہیں سیاسی طور پر جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے کے بعد، پولیس کی حراست میں اور جیل کے اندر، تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
SEE ALSO: بنگلہ دیش میں احتجاج کے دوران ٹرین نذر آتش، ماں اور بیٹے سمیت چار افراد ہلاکرضوی نے مزید کہا، ’’تشدد کے بعد جب وہ زخمی ہو جاتے ہیں، تو اکثر و بیشتر انہیں طبی امداد سے محروم کر دیا جاتا ہے اور ان میں سے کچھ حراست میں ہی مر رہے ہیں،"
بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال نے اپوزیشن کارکنوں پر حراست کے دوران تشدد کا الزام مسترد کردیا۔
کمال نے مقامی نامہ نگاروں کو بتایا کہ "پولیس کی حراست میں یا جیل میں کسی پر تشدد نہیں کیا جاتا۔ جیل میں ہر شخص کو قوانین کے مطابق مناسب طبی علاج فراہم کیا جاتا ہے۔
بی این پی کئی مہینوں سے ملک بھر میں مظاہرے کر رہی ہے، جس میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے اور انتخابات کے انعقاد کےوقت ایسی غیر جانبدار نگران حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، جو حزب اختلاف کے مطابق، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بناسکے۔
ڈھاکہ میں 28 اکتوبر کو حزب اختلاف کی ایک بڑی ریلی کے بعد، حکومت نے تشدد کا الزام لگاتے ہوئے، بی این پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ہدف بنا کر کریک ڈاؤن شروع کیا۔
'طبی علاج تک رسائی سے انکار'
بی این پی کے مطابق، 28 اکتوبر کی ریلی کے بعد سے پارٹی کی قیادت سمیت، اس کے 21 ہزار سے زیادہ کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
بی این پی کے صحت کے امور کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام نے وی او اے کو بتایا کہ جیل بھیجے جانے سے قبل پولیس کی حراست میں تشدد کے دوران کچھ کارکن بری طرح زخمی ہو گئے ہیں۔
اسلام نے جو ایک یورولوجسٹ ہیں کہا، "بہت سے گرفتار کارکنوں اور ان کے رشتہ داروں نے ہمیں بتایا کہ کارکن اپنی بیماریوں کی اطلاع جیل کے عہدہ داروں کو دیتے ہیں اور علاج معالجے کی التجا کرتے ہیں۔
جیل حکام اکثر مخالف سیاسی کارکنوں کو مناسب طبی امداد تک رسائی کی اجازت نہیں دیتے۔"
انہوں نے کہا کہ "ان میں سے کچھ مہلک زخموں یا بیماریوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ، جیل میں کسی قسم کے علاج کی عدم موجودگی کی وجہ سے زندگی سے محروم ہو رہے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "دو ہفتوں میں، بی این پی کے چھ رہنما اور کارکن جیل میں موت کے مونہہ میں چلے گئے، اور ہر ایک کیس میں جیل میں دوران حراست، طبی علاج میں غفلت رپورٹ کی گئی ہے۔"
جیل میں مرنے والے بی این پی کارکنوں کے بہت سے عزیز، ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام کے بیان کی تائید کرتےہیں۔
بی این پی کے ایک کارکن کی والدہ نے وی او اے کو بتایا کہ ان کا بیٹا ہائی بلڈ پریشر کا کا مریض تھا اورگرفتاری کے بعد جب اسے روزانہ لینے والی دوائیں نہیں دی گئیں تو اس کی حلات بگڑ گئی اور وہ انتقال کر گیا۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم گرفتاری کے 10 یا 12 دن بعد اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے جیل گئے تو وہ بہت بیمار دکھائی دے رہا تھااور کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں تھا۔ "اس نے ہم سے کہا کہ اسے جیل سے باہر نکالنے کا انتظام کریں اور جلد از جلد اسے باہر کے کسی اسپتال لے جائیں۔"
ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا پر ایک سینئیر ریسرچر جولیا بلیکنر نے کہا ہے کہ “ان کی تنظیم نے یہ الزامات درج کرائے ہیں کہ حالیہ پکڑ دھکڑ میں گرفتار کیے گئے حزب اختلاف کی جماعت کے سر گرم کارکنوں کو اذیت رسانی کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حراست کے دوران اموات کے اس پریشان کن سلسلے میں ہر کیس کی شفاف غیر جانبدارانہ چھان بین ہونی چاہئے ۔ “
بلیکنر نے وی او اے کوبتایا کہ” جیل حکام ان اموات کو صرف یہ کہہ کر مسترد نہیں کر سکتےکہ ان افراد کی موت کی وجوہات قدرتی تھیں ۔ “
انہوں نےکہا کہ “سرکاری حکا م قانون کے ضابطوں کو نظر انداز کر کے ایک منصفانہ الیکشن کے دعوؤں کی اہمیت کو گھٹا کر بیان کر رہے ہیں۔
حکام کو ان عارضی طور پر گرفتار افراد کو رہا کرنا چاہیے ،اذیت رسانی سے متعلق تمام دعوؤں کی چھان بین کرنی چاہیے اور قصور واروں کو جواب دہ ٹھہرانا چاہیے۔”
وی او اے کےنامہ نگار شیخ عزیز الرحمان کی رپورٹ۔