افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں 15 جون 2014 کو عسکریت پسندوں کے خلاف شروع کیے جانے والے آپریشن 'ضربِ عضب' کے چھ سال مکمل ہونے کے باوجود ابھی تک نقل مکانی کرنے والے 15 ہزار سے زائد خاندانوں کی واپسی اور بحالی کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن غزن جمال اورک زئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
غزن جماک اورک زئی کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد شمالی وزیرستان میں ہونے والے آپریشن کے متاثرین کو واپسی اور بحالی میں مدد فراہم کی گئی ہے۔
ان کے بقول اس کے علاوہ ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
غزن غازی جمال اورک زئی کا کہنا تھا کہ اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جب کہ صوبائی حکومت شمالی وزیرستان سمیت تمام قبائلی اضلاع کی ترقی اور خوش حالی کے لیے پُر عزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب حالات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے جب کہ نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی بھی جلد مکمل ہو جائے گی۔
آپریشن ضرب عضب کا آغاز
شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے مبینہ سربراہ حافظ گل بہادر نے حکومت کے ساتھ ستمبر 2006 اور نومبر 2013 میں ہونے والے معاہوں کو اپریل 2014 کے آخر میں توڑنے جب کہ حکومتی املاک اور سیکیورٹی فورسز پر حملے شروع کرنے کا اعلان کیا تو حکومت نے خلاف فوجی کارروائی کے لیے صلاح مشورے شروع کیے
حکومت کی منظوری کے بعد 15 جون 2014 سے باقاعدہ طور پر عسکریت پسندوں کےخلاف 'ضربِ عضب' کے نام سے فوجی کارروائی شروع کی گئی۔ جو 2017 تک جاری رہی۔
عسکریت پسند کون تھے؟
شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندی 2005 میں اُس وقت شروع ہوئی جب افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کی کارروائیوں کے بعد بھاگنے والے افغان اور غیر ملکی عسکریت پسند ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ سکونت اختیار کرنے سرحد پار اس علاقے میں پہنچے۔
ان غیر ملکی عسکریت پسندوں میں القاعدہ سے منسلک عرب جنگجوؤں کے علاوہ وسط ایشیائی ممالک بالخصوص ازبکستان، قازقستان اور چین کے اویغور انتہا پسند شامل تھے۔
دسمبر 1979 میں روس کی فوج کے داخلے کے بعد جب افغانستان سے ہزاروں لوگوں نے ہجرت کی تھی تو اس دوران افغانستان کے صوبوں خوست، پکتیا، پکتیکا، لوگر اور دیگر صوبوں سے بھی کافی تعداد میں افغان مہاجرین شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں منقل ہوئے تھے اور یہاں پر انہوں نے عارضی طور پر سکونت احتیار کی تھی۔
خوست کے بڑے قبیلے زدران سے تعلق رکھنے والے مولوی جلال الدین حقانی ان چند نامی گرامی افغان کمانڈروں میں شامل تھے جو فرنیٹر کور (ایف سی) کے سابق انسپکٹر اور سابق وزیر داخلہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) نصیر اللہ بابر کے مدد سے 70 کی دہائی کے اوائل میں آئے تھے۔
اس دوران جلال الدین حقانی نے میران شاہ کے نواحی علاقے ڈانڈے درپہ خیل کے ایک وسیع علاقے میں اپنا ذاتی کیمپ قائم کیا اور اس علاقے میں انہوں نے رہائشی مکانات کے علاوہ ایک بہت بڑا مدرسہ بھی قائم کیا تھا۔
جلال الدین حقانی روس کے خلاف افغان جنگ کے دوران حزبِ اسلامی افغانستان (خالص) کے اہم رہنماؤں میں شامل تھے۔ اُنہوں نے اس جنگ کے دوران ایک اہم انفرادی کمانڈر کی حیثیت سے بھی کافی شہرت حاصل کی تھی اور وہ امریکہ، پاکستان اور سعودی عرب کے جاسوسی اداروں کے بہت قریب بھی رہے تھے۔
گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد جب افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو مولوی جلال الدین کا حقانی گروہ امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف مسلح مزاحمت میں سب سے بڑھ کر سامنے آیا۔ یوں ڈانڈے درپہ خیل بھی افغان طالبان کے ایک اہم ٹھکانے میں تبدیل ہو گیا۔
شمالی وزیرستان میں جمعیت علماء اسلام کے دونوں دھڑوں سے تعلق رکھنے والے بعض افراد جن میں حافظ گل بہادر، مولوی صادق نور، گل رمضان، مولوی عبد الخالق، مولوی حلیم خان، عبدالرحمٰن وغیرہ نمایاں تھے، نے مل کر مجاہدین شوریٰ شمالی وزیرستان سے ایک تنظیم قائم کرکے اسے تحریک طالبان افغانستان اور تحریک طالبان سوات، باجوڑ سے منسلک کر دیا۔
سوات، باجوڑ اور مہند کی تنظیمیں بعد میں باقاعدہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کا حصہ بنیں۔ جب کہ شوریٰ مجاہدین شمالی وزیرستان بیت اللہ محسود کی قیادت میں بننے والی تحریک طالبان پاکستان کی اتحادی بن گئی۔
حافظ گل بہادر نے جنوبی وزیرستان کے حاجی نذیر جب کہ باجوڑ کے ڈاکٹر اسمٰعیل اور مولوی فقیر محمد کے ساتھ روابط قائم کیے۔
حکومت کے ساتھ معاہدہ
حافظ گل بہادر کی شوریٰ مجاہدین نے 5 ستمبر 2005 میں حکومت اور فوج سے باقاعدہ معاہدہ کرکے فوج اور فوجی تنصیابات پر حملے نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ جب کہ حکومت کی جانب سے حافظ گل بہادر کو مکمل طور پر نہ صرف اپنا اثر رسوخ قائم کرنے بلکہ ہر قسم کے ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ٹھکانے فراہم کرنے، اغوا برائے تاوان یا بھتہ خوری کی وارداتوں کی کھولی چھوٹ مل گئی۔
خیبر پختونخوا کے سابق گورنر علی محمد خان اورکزئی نے اس معاہدے کو پاکستان اور سیکیورٹی اداروں کے لیے بہتر قرار دیا گیا تھا جب کہ بعد میں مارچ 2007 میں اسی معاہدے کی طرح ایک اور معاہدہ جنوبی وزیرستان کے احمد زئی وزیر قبیلے کےساتھ طے ہوا۔ جس کے تحت ایک اور عسکریت پسند حاجی نذیر کے سربراہی میں امن کمیٹی قائم کر دی گئی۔
حافظ گل بہادر اور حاجی نذیر نے نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بلکہ دونوں نے بیت اللہ محسود کی تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے روابط قائم کیے۔ جب 2009 کے وسط میں سوات کے بعد جنوبی وزیرستان میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن 'راہِ نجات' کے نام سے فوجی کارروائی کا آغاز ہوا۔ تو تحریک طالبان پاکستان کے زیادہ تر جنگجوؤں نے حکیم اللہ محسود اور قاری حسین کی قیادت میں شمالی وزیرستان میں مراکز قائم کیے۔
بعد ازاں یہ تمام ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسند اس وقت حکومت کے لیے دردِ سر بن گئے جب حکیم اللہ محسود کو امریکی ڈورن نے یکم نومبر 2013 کو ایک ایسے وقت میں نشانہ بنایا جب وہ حکومت کی تشکیل کردہ مذاکراتی وفد کے ساتھ مذاکرات کرنے اہل خانہ سمیت ہنگو آئے ہوئے تھے۔
اس دوران حافظ گل بہادر نے حکومت کو حکیم اللہ محسود پر امریکی ڈرون حملے کے لیے موردِ الزام ٹہرایا جب کہ حکومت کے ساتھ نہ صرف ستمبر 2006 کے معاہدے کو منسوخ کیا بلکہ حکومت، سیکیورٹی فورسز اور ریاستی املاک پر حملے شروع کرنے کا اعلان بھی کیا اور ردِ عمل میں 15 جون 2014 کو 'ضربِ عضب' کے نام سے فوجی کارروائی کا آغاز ہوا۔
نقل مکانی
حکومتی اپیل پر شمالی وزیرستان کے زیادہ تر علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی تھی جب کہ ایک ہفتے سے بھی کم وقت کے دوران لگ بھگ 25 لاکھ افراد پشاور، بنوں اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے 'پی ڈی ایم اے' کے اعداد و شمار کے مطابق نقل مکانی کرنے والے رجسٹرڈ ایک لاکھ 10 ہزار خاندان واپس اپنے علاقوں میں جا چکے ہیں جب کہ 15 ہزار 600 خاندانوں کی واپسی ابھی تک نہیں ہوئی۔
ان میں سے 2000 خاندان بنوں کے نواحی علاقے بکاخیل میں قائم خیمہ بستی میں زندگی گزار رہے ہیں جب کہ بقیہ 13 ہزار خاندان پشاور، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔
نقل مکانی کرتے وقت سرحدی علاقوں میں کے 17 ہزار خاندان افغانستان کے ملحقہ سرحدی صوبے خوست منتقل ہوئے تھے۔ حکام کے بقول ان میں سے پانچ ہزار خاندانوں کی واپسی ہوئی ہے مگر 10 ہزار خاندان اب بھی خوست میں مقیم ہے۔
تاہم افغان حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 20 ہزار خاندانوں سے بھی زیادہ ہے۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول کا سانحہ
پاکستان میں حکام ہمیشہ سے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن 'ضربِ عضب' اور خیبر میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ فوج کے آپریشن 'ضربِ عضب' کے دوران ہی 16 دسمبر 2014 کو عسکریت پسندوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں 138 بچوں سمیت 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس سانحے کے بعد ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی کےخاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان یعنی قومی لائحہ عمل کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس لائحہ عمل کے تحت دہشت گردی میں ملوث افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں کے حوالے کیے گئے جب کہ ملک بھر میں کئی سال سے معطل سزائے موت کے پر عمل درآمد کا دوبارہ سے آغاز ہوا۔
ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 100 دہشت گردوں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد ہو چکا ہے جب کہ پشاور ہائی کورٹ نے 64 افراد کی سزاؤں کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا ہے۔ یہ کیس اب سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔
فوجی کارروائیوں کے باعث نقل مکانے کرنے والوں کی واپسی کا سلسلہ 2016 کے آخر میں شروع ہوا۔ اس وقت حکومت اور حافظ گل بہادر کے درمیان صلح کے لیے کوششیں شروع کی گئیں۔ ان کاوشوں کے کامیابی اور ناکامی کے بارے میں کوئی واضح سرکاری بیان یا اعلامیہ سامنے نہیں آیا مگر بتایا جاتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں سیکڑوں مبینہ دہشت گردوں کے ہتھیار پھینکنے اور اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے کے بعد معافی دے دی گئی ہے۔ تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی اور اس کے بعد نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کے دوران ہی جنوری 2018 میں کراچی میں جنوبی وزیرستان کے ایک نوجوان کو دہشت گرد قرار دے کر جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔ اس نوجوان کی ہلاکت پر احتجاج کے نتیجے میں مبینہ طور پر 'پشتون تحفظ تحریک' کا قیام عمل میں آیا۔ مبصرین کے مطابق اس تنظیم کے سامنے آنے سے سیاسی، انتظامی اور سیکیورٹی معاملات پر منفی اور مثبت دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
دوسری طرف نقل مکانی کرنے والوں کی آبائی علاقوں میں واپسی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی، تشدد اور گھات لگا کر قتل کرنے کی وارداتیں بھی تو اتر سے جاری ہیں۔
شمالی وزیرستان سے رکن صوبائی اسمبلی میر کلاف وزیر کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران 100 کے قریب لوگ تشدد کے واقعات میں ہلاک کیے جا چکے ہیں۔
حکومت اور قبائلی عوام کے درمیان بد اعتمادی کا سلسلہ بھی بدستور برقرار ہے۔ جس علاقے میں پاکستان کی فوج آپریشن کر چکی ہے یہاں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے رجحان نے لوگوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔