قومی اسمبلی اور سینیٹ میں 21ویں آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری کے بعد ملک کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں چھٹی مرتبہ فوجی عدالتوں کے قیام کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے۔ یہ تعداد اس جانب واضح اشارہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی تاریخ کوئی نئی نہیں، بلکہ بہت پرانی ہے۔
تاریخی حوالوں پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں فوجی عدالتوں کی تاریخ 1953ء سے شروع ہوتی ہے اور ملک میں نافذ رہنے والے چار مارشل لاز کے گرد گھومتی ہے۔
پہلا مارشل لاء 1953، دوسرا 1958ء ، تیسرا 1969ء اور چوتھا 1977ء میں نافذ ہوا اور ان کے نتیجے میں ہر بار فوجی عدالتیں بھی قائم ہوئیں۔ البتہ، نواز شریف کی وزارت اعظمیٰ کے پچھلے دور میں ’جمہوریت کی موجودگی میں ہی پہلی مرتبہ فوجی عدالتوں کے قیام کا پہلا تجربہ‘ ہوا۔
اس طرح جمہوری حکومت کی موجودگی میں فوجی عدالتوں کا یہ دوسرا تجربہ ہوگا، جبکہ مجموعی طور پر ملک میں چھٹی بار فوجی عدالتیں معرض وجود میں آئیں گی۔
فوجی عدالتوں سے سزا پانے والی اہم شخصیات
ملک کی 68سالہ تاریخ میں بہت سی ایسی نامور شخصیات ہیں جنہیں ان عدالتوں سے سخت سزائیں سنائی گئیں۔
یہ سزائیں درست تھیں یا غلط، اس بحث سے ہٹ کر دیکھیں تو ان شخصیات میں (1)جماعت اسلامی کے بانی سیدابوالاعلیٰ مودودی ،(2) جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما مولاناعبد الستارخان نیازی ،(3) بلوچستان کے سردار نوروز خان، ان کے بیٹے، بھتیجے(4) سردار نواب اکبر بگٹی ،(5) پیپلز پارٹی کے رہنما معراج محمد خان، (6)مشہور ٹی وی کمپیئر طارق عزیز ،(7) پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو ،(8) بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خدا بخش مری اور دیگر ہزاروں سیاسی کارکن شامل ہیں۔