بھارتی ریاست کیرالہ تعلیم اور ترقی میں دوسری ریاستوں سے آگے ہے۔ اس نے دوسری ریاستوں کے مقابلے میں کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کی بہتر کوششیں کی ہیں۔ لیکن اسے بچوں کی خود کشیوں کو روکنے میں ناکامی پر تنقید کا سامنا ہے۔
کیرالہ میں گزشتہ 3 ماہ کے دوران 66 بچے خودکشی کر چکے ہیں۔ ان میں 64 بچوں کی عمر 12 سے 18 سال تھی جب کہ 2 بچے 12 سال سے بھی کم عمر تھے۔ 61 نے پھندے سے لٹک کر اپنی جان لی۔
حکومت نے اس رجحان کو روکنے کے لیے بچوں کی کاؤنسلنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیرالہ کے وزیراعلیٰ پناروای وجیئن کا کہنا ہے کہ اسکول بند ہیں اور ممکن ہے کہ بچوں کو لاک ڈاؤن میں ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو۔ ریاستی حکومت نے ایک سینئر پولیس افسر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس معاملے کو دیکھے گی۔
جون کے آغاز میں ایک 14 سالہ طالبہ دیویکا بالاچندرن نے اس لیے خودکشی کر لی کہ اس کے گھر میں اسمارٹ فون یا ٹیلی وژن نہیں تھا اور وہ آن لائن کلاسیں نہیں لے سکتی تھی۔ اس نے صرف ایک سطر کا آخری پیغام لکھا کہ میں جا رہی ہوں۔ وہ امتحانات میں سب سے زیادہ مارکس لینے والی طالبہ اور کلاس لیڈر تھی۔
ماہرین نفسیات اس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران بچے اہ لخانہ کے ساتھ گھر میں وقت گزار رہے ہیں یعنی ان پر بیرونی دباؤ نہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں تو وجوہ جاننے پر توجہ دینی چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت نے مارچ میں ایک ہدایت نامہ جاری کیا تھا جس میں وبا کے دوران ذہنی صحت سے متعلق سفارشات دی تھیں اور خاص طور پر بچوں کا خیال رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔
بچوں کی خودکشی کے حالیہ اعداد و شمار لائق تشویش ہیں لیکن ریاست کے کرائم ریکارڈز بیورو کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اس عرصے میں زیادہ بچوں نے خودکشی کی تھی جن کی تعداد 83 تھی۔ کیرالہ میں 2014 میں 330، 2015 میں 297 اور 2016 میں 242 بچوں نے اپنی جان خود لی تھی۔
کیرالہ بچوں کے علاوہ بڑے بھی خودکشیاں کر رہے ہیں جس کی وجہ معاشی مسائل ہیں۔ وزیراعلیٰ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ بیرون ملک سے واپس آںے والے نصف سے زیادہ لوگوں کو خدشہ ہے کہ انھیں دوبارہ کام پر نہیں بلایا جائے گا۔