کراچی: عالمِ دین کے قتل کی تحقیقات جاری، نماز جنازہ ادا

پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں گزشتہ روز قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والے دیو بند مسلک کے معروف عالم دین مولانا ڈاکٹر عادل خان اور ان کے ڈرائیور کو اتوار کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔

مولانا عادل کی نماز جنازہ اتوار کی صبح کراچی کے علاقے حب ریور روڈ پر ادا کی گئی جس میں مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

مولانا عادل خان کو ہفتے کی رات اس وقت قتل کیا گیا۔ جب وہ ایک تقریب میں شرکت کے بعد واپس جارہے تھے اور انہیں شاہ فیصل کالونی میں ایک مارکیٹ کے قریب موٹر سائیکل سواروں نے نشانہ بنایا۔

ڈاکٹر عادل خان دینی مدرسہ جامعہ فاروقیہ کے مہتمم تھے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ماضی میں بھی فرقہ وارانہ اور سیاسی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ تاہم سیکیورٹی اداروں کا دعویٰ ہے کہ حالیہ چند برسوں میں صورتِ حال خاصی بہتر ہوئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی مولانا عادل خان کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے بھارت پر الزام لگایا ہے کہ بھارت پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کرانا چاہتا ہے۔

ٹوئٹ میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت پچھلے تین ماہ سے علمائے دین کو نشانہ بنا کر پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کرانے کے لیے کوشاں ہے۔

تاہم وزیراعظم عمران خان کے بیان پر بھارت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

مولانا عادل خان ایک عرصے تک امریکہ میں مقیم رہے۔ جہاں انہوں نے ریاست کیلی فورنیا میں بچوں کے لیے ایک اسلامی سینٹر قائم کیا۔ تاہم 2005 میں مولانا عادل اور ان کے بیٹے کو گرفتاری کے بعد ملک بدر کر دیا گیا تھا۔

امریکی سیکیورٹی حکام نے مولانا عادل اور اُن کے بیٹے پر ممکنہ طور پر دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے کے سلسلے میں تحقیقات کیں۔

ان دونوں کو ایک ڈیل پر راضی ہونے کے بعد امریکہ سے واپس پاکستان بھیج دیا گیا جس کے مطابق امریکی حکومت نے ان پر عائد الزامات واپس لے لیے کہ ڈاکٹر عادل اور ان کے بیٹے نے امریکہ آتے وقت غلط بیانی سے کام لیا تھا۔

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی سیاسی، فرقہ وارانہ اور دہشتگرد کاروائیوں کا گڑھ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ (فائل فوٹو)

مولانا عادل کا قتل ایسے وقت میں ہوا ہے جب حالیہ دنوں میں شیعہ اور سنی مسالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

دونوں مسالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ اگست میں سامنے آنے والی شیعہ عالم دین کی ایک مبینہ ویڈیو کے بعد ہوا۔ جس میں مبینہ طور پر اُنہوں نے بعض اسلامی شخصیات کے متعلق نامناسب الفاظ ادا کیے۔

ویڈیو سامنے آنے کے بعد سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد نے کراچی اور دیگر شہروں میں احتجاج کیا اور شیعہ عالم دین پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا۔

خیال رہے کہ سنی اور شیعہ مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلح گروہوں کے خلاف حالیہ برسوں میں کریک ڈاؤن کے باعث پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں ڈرامائی انداز میں کمی دیکھی گئی ہے۔