کراچی میں پیر کی صبح پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر مسلح افراد کے حملے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ سندھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے تھانے میں درج ہونے والا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
مقدمے میں ایکسپلوسو ایکٹ، انسداد دہشت گردی قانون، سندھ آرمز ایکٹ، قتل، اقدام قتل سمیت دیگر دفعات کو شامل کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور دہشت گردوں سے مقابلے میں چاروں دہشت گرد مارے گئے جب کہ حملے کے دوران سب انسپکٹر محمد شاہد اور تین سیکیورٹی گارڈز بھی فرض کی ادائیگی کے دوران ہلاک ہو گئے۔
پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے بڑی تعداد میں دستی بم، لانچر، رائفل گرنیڈ، گولیاں، میگزین، کھانے پینے کا سامان، چھوٹی مشین گنز، کٹ بیگ، پانی کی بوتلیں اور دیگر سامان ملا ہے۔
واضح رہے کہ صوبہ بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند مسلح گروپ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کارروائی گروپ کے خود کش اسکواڈ مجید بریگیڈ نے کی۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ان عناصر کو بھارت کی خفیہ ایجنسی کی حمایت حاصل ہے۔ اس سے قبل یہ گروپ نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے اور 2019 میں گوادر میں واقع فائیو اسٹار ہوٹل پر کیے گئے حملوں کی ذمہ داری سمیت بلوچستان میں سیکورٹی فورسز پر کئی حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کر چکا ہے۔
اسٹاک مارکیٹ کو ٹارگٹ کرنے کی وجہ؟
کراچی کی ابراہیم اسماعیل (آئی آئی چندریگر) روڈ پر واقع پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد اس پہلو پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ آخر اسٹاک مارکیٹ کو ہی نشانہ کیوں بنایا گیا؟
یہ عمارت پاکستان کے معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز اور سب سے بڑے شہر کراچی کے دل میں واقع ہے جس کے بہت قریب پاکستان کے مرکزی بینک سمیت کئی قومی اور نجی کمپنیوں کے صدر دفاتر، سینٹرل پولیس آفس بندرگاہ، ریلوے اسٹیشن، ہوٹلز اور دیگر حساس تنصیبات بھی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے بقول ایسے حملوں میں اہداف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور حملے کے لیے اسٹاک مارکیٹ کے انتخاب کے بھی مخصوص مقاصد تھے۔
سیکیورٹی اُمور کے تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ پر حملے کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو مزید نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
اُن کے بقول حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی یہ سوچ ہو سکتی ہے کہ پاکستان کی معاشی علامت پر حملہ کر کے وہ زیادہ توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔
طلعت مسعود کہتے ہیں کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں چین کی بھی بھاری سرمایہ کاری ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں بلوچستان میں چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی وجہ سے چین کی مداخلت پر نالاں بھی ہیں۔ لہذٰا یہ حملہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ چین پر بھی کیا گیا ہے۔
اُن کے بقول بلاشبہ اس حملے کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے منفی اثرات پھر بھی مرتب ہوں گے۔ بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہو گی جب کہ پہلے سے ہی کرونا کی وجہ سے مشکلات سے دوچار معیشت پر اس کا برا اثر پڑے گا۔
اسٹاک مارکیٹ معاشی ترقی کا پیمانہ
معاشی اُمور کے ماہرین بھی ان خیالات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس حملے کے اثرات آنے والے دنوں میں نظر آ سکتے ہیں۔
اقتصادی اُمور کے ماہر سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کسی بھی ملک میں جاری معاشی سرگرمیوں کو جانچنے کے کئی پیمانوں میں سے ایک ہے جس کی کارکردگی کوئی بھی سرمایہ کار، سرمایہ لگانے سے قبل ضرور دیکھتا ہے۔
اُن کے بقول اگرچہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کا حجم دنیا کے دیگر بازارحصص سے کافی کم ہے لیکن پھر بھی پاکستان کی معیشت میں بھی اس کی ایک اسٹرٹیجک اہمیت ضرور ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بیرونِ ممالک میں موجود کوئی بھی ادارہ اگر سرمایہ کاری کے لیے بہتر مواقع کا اندازہ لگا رہا ہوتا ہے تو وہ سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے چیزوں کو ضرور دیکھتا ہے کہ یہ ملک سرمایہ کاری کے لیے کس قدر محفوظ ہے۔ ایسے میں اسٹاک مارکیٹ پر حملے سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری پر بھی اس کا منفی اثر پڑسکتا ہے۔
سمیع اللہ طارق کے مطابق دوسری جانب اکثر خریدار مصنوعات دیکھنے، انہیں پرکھنے اور قیمت کا تعین کرنے وغیرہ کے لیے ملک کے دورے پر آتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ اس دوران اس نوعیت کا ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے تو یہ اس مال کی خریداری یا دوسرے الفاظ میں برآمدات پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی وجہ سے ہی پہلے ہی پاکستان کو کافی نقصان پہنچا۔ ہماری برآمدات کا بڑا حصہ دیگر پڑوسی ممالک کو منتقل ہو گیا۔ اُن کے بقول اس حملے سے کوئی بڑا جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن پھر بھی اس کی علامتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
دہشت گردی کی نئی لہر سے کیسا نمٹا جائے؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ بلوچستان پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے اور بجائے اس کے کہ وہاں فوج یا پیرا ملٹری فورسز کا عمل دخل زیادہ ہو۔ وہاں سیاسی حکمتِ عملی کے ذریعے عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں سیاست کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے اور یہ ضروری ہے کہ بلوچستان کے نمائندے صوبے کے مفادات کی صحیح طور پر ترجمانی کریں اور لوگوں کا احساس محرومی ختم کرنے کے لیے کام کریں۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود کے بقول بلوچستان کے ساتھ ہماری ایران اور افغانستان کی سرحد پر سیکیورٹی کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ اُن کے بقول بھارت اس علاقے میں پاکستان دشمن سرگرمیوں کی کھل کر حمایت کر رہا ہے اس لیے سیاسی عمل کی ضرورت اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ پاکستانی شہری بیرونی طاقتوں اور دشمن ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستانی ریاست کی کئی کمزوریاں بلوچستان میں نظر آتی ہیں۔ اس لیے یہاں توجہ دینا اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا محور بلوچستان اور اس کی بندرگاہ گوادر ہے۔