کسی بھی جاندار کے قدکاٹھ، جسامت اور وزن پر کئی عوامل اثرانداز ہوتے ہیں جن میں خوراک، آب وہوا اور ماحول شامل ہے۔ جس کی ایک نمایاں مثال قدیم چینی اور جاپانی فن ‘بونسائی ‘ ہے، جس بڑے بڑے درختوں کو ، جو عام حالات میں 70 سے 80 فٹ تک بلند ہوتے ہیں، عام گملوں میں اگا لیا جاتا ہے۔ ان درختوں کی بلندی محض ڈیڑھ دوفٹ ہوتی ہے اور وہ باقاعدہ پھل بھی دیتے ہیں۔
اسی طرح خوراک اور ماحول پر کنٹرول کے ذریعے جانوروں کے وزن اور قد بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر عام حالات میں ایک مرغی کا وزن ایک کلوگرام تک پہنچنے میں تقریباً چھ سے آٹھ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے ، جب کہ پولٹری فارموں میں وہ صرف چھ ہفتوں میں اس وزن کو پہنچ جاتی ہے۔
ہم بات کررہے تھے چوہے کی جسامت کے ہاتھی کی۔صرف ہاتھی پر ہی کیا موقوف، آج سے تقریبا ً چھ کروڑ سال پہلے تمام چوپائے، جن میں گائے، بیل، گھوڑے اوراسی طرح کے دوسرے بڑے بڑے جانور شامل ہیں، کے قد پانچ چھ انچ سے زیادہ نہیں تھے اور وزن چوہے کے برابر تھا۔ ان کا قد اور وزن انتہائی کم ہونے کی ایک وجہ تھی موت کا خوف۔۔۔کیونکہ چھوٹا قد ہی انہیں گوشت خور ڈینوساروں سے بچا سکتا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس زمین پر کروڑوں سال تک ڈینوساروں کا راج رہا ہے۔ ڈینوساروں کا ابتدائی سراغ تقریباً 13 کروڑ سال پہلے ملتا ہے۔ ڈینوسار بنیادی طور پر چھپکلی جیسے تھے۔ وہ انڈے دیتے تھے، مگر اپنے انڈے سہتے نہیں تھے۔ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال سے بھی آزاد تھے۔چنانچہ ان کا ایک ہی کام تھا، خوراک ڈھونڈنا اور خوب سیر ہوکر کھانا۔ اس دور میں پورے کرہ ا رض کی فضا گرم مرطوب تھی ، حتی کہ قطبی علاقوں میں بھی برف کی بجائے جنگلات تھے اور وہاں بڑے پیمانے پر بارشیں ہوتی تھیں۔ دنیا بھر میں پانی اورنباتات کی بہتات تھی۔ خوراک کی فراوانی تھی ۔ جس کا اثر ڈینوساروں کے قداور وزن کی شکل میں ظاہر ہوا۔ دنیا کے مختلف حصوں سے دریافت ہونے والی باقیات سے یہ نشان دہی ہوتی ہے کہ ڈینوساروں کی لمبائی 100 فٹ اور وزن 80ٹن تک تھا۔
ڈینوساروں کی کئی اقسام تھیں ، جن میں سے بعض نسلیں گوشت خور تھیں۔ ان کے خوف سے چوپائے یعنی اپنے بچوں کو دودھ پلانے والے جانور دن بھر چھپے رہتےتھے اور رات کی تاریکی میں خوراک کی تلاش میں نکلتے تھے۔ خوف اور خورا ک کی قلت سے ان کے قد چھوٹے رہ گئے تھے اور ہاتھی بھی چوہے بن گئے تھے۔
غالباً چھ کروڑ سال پہلے ڈینوسار دنیا سے غائب ہوگئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ آخر ایسے کیا عوامل تھے کہ ان کی نسل تک مٹ گئی۔ بعض ماہرین کا کہناہے کہ زمین پر شروع ہونے والا سرمائی دور ان کے خاتمے کا سبب بنا۔ کچھ کا خیال ہے کہ کسی بڑے سیارچے کے زمین سے ٹکرانے سے ہونے والی تباہی ان کے خاتمے کا سبب بنی۔ بعض کی رائے ہے کہ وہ زمین پر موجود ساری خوراک چٹ کرنے کے بعد بھوک سے مر گئے۔ ماہرین کے ایک اور گروہ کا کہناہے کہ ڈینوساروں کی بڑی جسامت ہی ان کے خاتمے کا سبب بنی کیونکہ ان کے دماغ تک یہ اطلاع ہی نہیں پہنچ پاتی تھی کہ ان کی دم یا جسم کا کوئی حصہ کسی وجہ سے زخمی ہوگیا ہے۔ خیال یہ ہے کہ ڈینوساروں کے دنیا سے مٹنے کے ایک سے زیادہ اسباب تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دور میں جب موت ڈینوساروں کو نگل رہی تھی، ان کی ایک نسل اپنی جان بچانے میں کامیاب رہی اور یہ نسل آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے جنہیں ہم پرندوں کےطور پر پہچانتے ہیں۔
ڈینوساروں کے خاتمے کے بعد دیگر جانوروں کے لیے زندگی آسان ہوگئی۔ اب وہ بلاخوف و خطر گھوم پھر سکتے تھے۔ اپنی خوراک تلاش کرسکتے تھے۔ اپنی نسل کی افزائش کرسکتے تھے۔ اپنے بچوں کو پروان چڑھا سکتے تھے۔
سائنس دانوں کا کہناہے کہ وزن کم کرنا سب سے آسان کام ہے ۔ جب لمبے عرصے تک خوراک کی کمی رہے تو متاثرہ جانداروں کے جین خود کوحالات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اوران کی آنے والی نسلیں چھوٹے قد کی ہوتی ہیں تاکہ ان کی خوراک کی ضروریات کم ہوں۔ لیکن یہ مرحلہ چند برسوں میں طے نہیں پاتا۔ اس کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔
لیکن اگر خوراک کی فراوانی ا ور ماحول اور آب و ہوا موافق ہوں توبھوک زیادہ لگتی ہے اور خوش خوراکی وزن میں اضافہ کرتی ہے۔ اور جب یہ سلسلہ طویل عرصے تک چلتا رہے تو جین کے اندر تبدیلیاں آنے لگتی ہیں اور آنے والی نسلوں کے قدکاٹھ بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ حجم کم کرنا نسبتا ایک آسان کام ہے جب کہ قدکاٹھ بڑھانے سے تعلق رکھنے والے جین میں تبدیلی کا عمل بہت سست رفتار ہے۔ جس میں لاکھوں سال لگ سکتے ہیں۔
سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ کسی جانور کے قد اور جسامت میں تبدیلی کے واضح آثار کم از کم ایک لاکھ نسلوں کے بعد ظاہر ہوتے ہیں۔
آسٹریلیا کی میلبرن یونیورسٹی کے سائنس دان ڈاکٹر ایلسٹیر ایونز کا، جو جانووں کے سائز اور وزن میں تبدیلی پر تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ تھے، کہناہے کہ جانوروں کے قد تقریباً سات کروڑ سال پہلے بڑھنا شروع ہوئے تھے۔ یہ وہ وہ دور تھا جب ڈینوسار اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہے تھے۔
ڈاکٹر ایونز کا کہناہے کہ ڈینوسار دور کے’ چوہے ہاتھی‘ اور آج کے دیوقامت ہاتھی کے درمیان اس کی کم ازکم دوکروڑ 40 لاکھ نسلوں کا فاصلہ ہے۔