پاکستان میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ملک کے کئی شہروں میں 'اسمارٹ لاک ڈاؤن' پر عمل درآمد جاری ہے جس کے تحت ان شہروں کے وائرس سے زیادہ متاثرہ علاقوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔
لاہور، کراچی، راولپنڈی، فیصل آباد، سیالکوٹ اور پشاور سمیت ملک کے کئی شہروں کے سیکڑوں علاقوں کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ صرف ملازمت پیشہ افراد یا ضروری خدمات سے وابستہ ملازمین کو کام پر جانے کی اجازت ہے جب کہ دیگر علاقوں سے لوگوں کو ان علاقوں میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔
'اسمارٹ لاک ڈاؤن' پالیسی کا اعلان پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے 13 جون کو دورہ لاہور کے دوران کیا تھا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے بجائے صرف ان علاقوں کو بند کیا جائے گا جو وائرس سے زیادہ متاثر ہیں۔
اسی دوران 15 جون کو پاکستان میں کرونا وائرس کے خلاف متحرک 'نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن کنٹرول' (این سی او سی) نے پاکستان کے بیشتر شہروں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کی سفارش کر دی تھی۔
این سی او سی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے 20 شہروں میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے جن میں اسلام آباد، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، وہاڑی، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، ڈیرہ غازی خان، حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ، نوڈیرو، گھوٹکی، خیر پور، پشاور، اپر چترال، ایبٹ آباد، مالا کنڈ، مردان اور بلوچستان کے علاقے شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
این سی او سی کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان بھر میں مزید 2150 وینٹی لیٹرز جولائی کے آخر تک فراہم کر دیے جائیں گے۔
اجلاس کے بعد پہلے لاہور میں اور پھر کراچی میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کے تحت متعدد علاقوں کو سیل کردیا گیا۔ کرونا کیسز کی روک تھام کے لیے لاہور شہر کے 21 علاقوں میں 61 مقامات کو بند کیا گیا ہے جب کہ کراچی کے تمام اضلاع کی 43 یونین کونسلز میں سخت لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔
کرونا سے بچاؤ کی نئی حکمت عملی کے تحت سندھ حکومت اور ڈپٹی کمشنرز نے کرونا 'ہاٹ اسپاٹس' کی نشاندہی کر کے کمشنر کراچی کو رپورٹ پیش کی تھی جس پر متاثرہ علاقوں کو 15 روز کے لیے سیل کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔
لاک ڈاؤن والے علاقوں میں ماسک لازمی ہو گا، ان علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ، ڈبل سواری اور تجارتی سرگرمیوں پر پابندی ہو گی۔ تاہم اشیائے خورو نوش کی دکانیں اور میڈیکل اسٹورز شام 7 بجے تک کھولے جا سکیں گے۔
اعلامیے کے مطابق لاک ڈاؤن والے علاقے میں گھر کے صرف ایک فرد کو سامان کی خریداری کی اجازت ہو گی۔ باہر نکلنے کی معقول وجہ بتانا بھی ضروری ہو گی۔ متاثرہ علاقوں میں دوسرے اضلاع کے رہائشیوں کا داخلہ ممنوع ہو گا۔
اعلامیے کے مطابق ان علاقوں میں ہوم ڈیلیوری کی اجازت نہیں ہو گی جب کہ گھروں پر تقاریب بھی منعقد نہیں کی جاسکیں گی۔ خلاف ورزی کرنے والوں پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ایسے ہی قواعد وضوابط پنجاب حکومت نے جاری کیے ہیں۔
محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر پنجاب کے مطابق صوبہ پنجاب میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ اسمارٹ ٹیسٹنگ کے بعد کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محکمہ ہیلتھ کے سیکرٹری کیپٹن (ر) محمد عثمان یونس نے بتایا کہ اسمارٹ ٹیسٹنگ کے ذریعے یہ معلوم کیا گیا کہ وائرس سے شہر کے کون کون سے علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ یہ کن پیشوں کے وجہ سے زیادہ پھیلا ہے جس کے لیے شہر کو چھوٹے چھوٹے حصوں یعنی بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے۔
محمد عثمان یونس نے مزید بتایا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کا فائدہ یہ ہو گا کہ سب کچھ بند کرنے کے بجائے مخصوص علاقوں کو بند کیا جا سکے گا یعنی ایسے علاقوں کو سیل کیا جائے گا جہاں کیسز زیادہ ہیں۔ اِس لاک ڈاؤن سے معاشی سرگرمیاں بھی چلتی رہیں گی اور وائرس کا پھیلاؤ بھی روکا جا سکے گا۔ اسمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ ماہرین کی رائے کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران جزوی لاک ڈاؤن کے باعث کرونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کے باعث ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے حکومتِ پاکستان کو خط لکھ کر صورتِ حال کی سنگینی سے آگاہ کیا تھا۔
ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ کہتی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کرونا وائرس کے باعث شروع دن سے لاک ڈاؤن کی پالیسی واضح ہے لیکن حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں ابہام پیدا کرتی رہتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مسرت جمشید چیمہ نے بتایا کہ موجودہ لاک ڈاؤن 'ایپی سینٹر' والے علاقوں میں کیا گیا ہے جہاں وائرس کی موجودگی اور پھیلاؤ زیادہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ لاک ڈاؤن وائرس کے پھیلاؤ کے لیے اسپیڈ بریکر کا کام کرے گا۔ لاک ڈاؤن صحت کے شعبے پر دباؤ کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو گا۔ موجودہ لاک ڈاؤن عوام، میڈیا اور ڈاکٹرز کی جانب سے دباؤ پر کیا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن کرونا وائرس کو ختم تو نہیں کر سکتا لیکن اِس کا پھیلاؤ روکنے میں معاون ہو سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نقل وحرکت محدود کرنے سے اسپتالوں میں کرونا کے نئے مریضوں کا دباؤ کم ہو گا۔
جمعے کو نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن کنٹرول کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں مزید 4944 افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔ پاکستان میں مصدقہ متاثرین کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 65 ہزار سے زائد ہو گئی ہے جب کہ مزید 136 افراد کرونا وائرس کے باعث ہلاک ہوئے۔ پاکستان میں جمعے تک اِس وبا سے مرنے والوں کی کل تعداد 3229 ہو گئی ہے۔
این سی او سی کے مطابق کرونا وائرس کے صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ 62269 مریض جب کہ صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ ہلاکتیں 1265 ہو چکی ہیں۔ اب تک پاکستان میں مجموعی طور پر دس لاکھ گیارہ ہزار سے زائد کرونا ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں جبکہ اب تک 59711 افراد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔