'واشنگٹن پوسٹ' کو انٹرویو دیتے ہوئے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی' کے سابق اہلکار سنوڈن نے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس پر ان کا ضمیر مطمئن ہے۔
واشنگٹن —
امریکی خفیہ ادارے 'این ایس اے' کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے کہا ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے عام شہریوں کی خفیہ نگرانی کے منصوبوں کا راز فاش کرکے وہ اپنا " مشن مکمل" کرچکے ہیں۔
امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کو انٹرویو دیتے ہوئے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی' کے سابق اہلکار سنوڈن نے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس پر ان کا ضمیر مطمئن ہے۔
یاد رہے کہ سنوڈن کے انکشافات پر مبنی رپورٹیں پہلے پہل 'واشنگٹن پوسٹ' اور 'گارڈین' میں شائع ہوئی تھیں جن میں 'این ایس اے' کی جانب سے لاکھوں امریکی شہریوں اور امریکہ کئی دوست ممالک کے سربراہان کی ٹیلی فون کالوں کی خفیہ نگرانی سمیت جاسوسی کے کئی منصوبوں سے پردہ اٹھایا گیا تھا۔
روس میں عارضی سیاسی پناہ پر مقیم سنوڈن نے کہا کہ انہوں نے جو سرکاری دستاویزات افشا کی ہیں وہ اب عوام کی دسترس میں ہیں جسے وہ جیسے چاہیں، استعمال کرسکتے ہیں۔ ان کے بقول ان دستاویزات کو عوام کے لیے قابلِ رسائی بنا کر ان کا مقصد پورا ہوگیا ہے۔
سنوڈن کے انکشافات نے دنیا بھر میں شخصی آزادی کے تحفظ اور حکومتوں کے دائرہ اختیار سے متعلق بحث چھیڑ دی تھی جب کہ کئی ملکوں نے امریکہ سے اپنے سیاسی رہنماؤں اور سفارت خانوں کی مبینہ جاسوسی پر احتجاج بھی کیا تھا۔
ان رپورٹوں کی اشاعت سے قبل سنوڈن ہانگ کانگ آگئے تھے جہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد وہ روس پہنچے تھے جہاں انہیں عارضی سیاسی پناہ مل گئی تھی۔
امریکہ میں سنوڈن کے خلاف ملک سے غداری اور جاسوسی کے الزامات میں تحقیقات کی جارہی ہیں اور امریکی حکام نے روس سے انہیں جلاوطن کرنے کا مطالبہ کیا ہے جسے ماسکو حکومت مسترد کرچکی ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک امریکی جج نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کے نتیجے میں منظرِ عام پر آنے والی امریکی حکومت کی جاسوسی کی سرگرمیوں کو غیر آئینی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج رچرڈ لیون نے کہا تھا کہ امریکی حکومت کی جانب سے کسی عدالتی حکم کے بغیر لوگوں کی ذاتی زندگی میں اس درجہ مخل ہونا ناقابلِ یقین ہے۔
تاہم جج لیون نے اپنے فیصلے میں امریکی حکومت کے ان اقدامات کو مکمل طور پر غیر آئینی قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے اسے اس رولنگ کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کو انٹرویو دیتے ہوئے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی' کے سابق اہلکار سنوڈن نے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس پر ان کا ضمیر مطمئن ہے۔
یاد رہے کہ سنوڈن کے انکشافات پر مبنی رپورٹیں پہلے پہل 'واشنگٹن پوسٹ' اور 'گارڈین' میں شائع ہوئی تھیں جن میں 'این ایس اے' کی جانب سے لاکھوں امریکی شہریوں اور امریکہ کئی دوست ممالک کے سربراہان کی ٹیلی فون کالوں کی خفیہ نگرانی سمیت جاسوسی کے کئی منصوبوں سے پردہ اٹھایا گیا تھا۔
روس میں عارضی سیاسی پناہ پر مقیم سنوڈن نے کہا کہ انہوں نے جو سرکاری دستاویزات افشا کی ہیں وہ اب عوام کی دسترس میں ہیں جسے وہ جیسے چاہیں، استعمال کرسکتے ہیں۔ ان کے بقول ان دستاویزات کو عوام کے لیے قابلِ رسائی بنا کر ان کا مقصد پورا ہوگیا ہے۔
سنوڈن کے انکشافات نے دنیا بھر میں شخصی آزادی کے تحفظ اور حکومتوں کے دائرہ اختیار سے متعلق بحث چھیڑ دی تھی جب کہ کئی ملکوں نے امریکہ سے اپنے سیاسی رہنماؤں اور سفارت خانوں کی مبینہ جاسوسی پر احتجاج بھی کیا تھا۔
ان رپورٹوں کی اشاعت سے قبل سنوڈن ہانگ کانگ آگئے تھے جہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد وہ روس پہنچے تھے جہاں انہیں عارضی سیاسی پناہ مل گئی تھی۔
امریکہ میں سنوڈن کے خلاف ملک سے غداری اور جاسوسی کے الزامات میں تحقیقات کی جارہی ہیں اور امریکی حکام نے روس سے انہیں جلاوطن کرنے کا مطالبہ کیا ہے جسے ماسکو حکومت مسترد کرچکی ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک امریکی جج نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کے نتیجے میں منظرِ عام پر آنے والی امریکی حکومت کی جاسوسی کی سرگرمیوں کو غیر آئینی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج رچرڈ لیون نے کہا تھا کہ امریکی حکومت کی جانب سے کسی عدالتی حکم کے بغیر لوگوں کی ذاتی زندگی میں اس درجہ مخل ہونا ناقابلِ یقین ہے۔
تاہم جج لیون نے اپنے فیصلے میں امریکی حکومت کے ان اقدامات کو مکمل طور پر غیر آئینی قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے اسے اس رولنگ کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔