اگرچہ فٹ بال کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر165 واں ہے لیکن وہ اس لحاظ سے چیمپئن ہے کہ وہ دنیا کو سب سے زیادہ فٹ بال فراہم کرنے والا ملک ہے۔ جس سال ورلڈ کپ کھیلا جارہا ہو، اس سال پاکستان سے بالعموم ساڑھے پانچ سے چھ کروڑ فٹ بال برآمد کیے جاتے ہیں۔ جب کہ عام برسوں میں یہ تعداد تقریباً چار کروڑ ہوتی ہے۔ پاکستان اس برآمد سے سالانہ20 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ حاصل کرتا ہے اور کچھ عرصہ قبل تک فٹ بال کی عالمی برآمد میں پاکستان کا حصہ 85 فی صد تک تھا۔
پاکستان میں فٹ بال انڈسٹری کا اہم ترین نام سیالکوٹ ہے۔ تقریباً پانچ لاکھ آبادی کے اس شہر اور اس کے مضافات میں فٹ بال بنانے کے سینکڑوں چھوٹے بڑے مراکز قائم ہیں اور اس صنعت سے لگ بھگ86 ہزار کارکنوں کا روزگار وابستہ ہے۔ سیالکوٹ کےہاتھ سے سلے ہوئے فٹ بال نہ صرف فیفا کے مقررکردہ معیار پرپورے اترتے ہیں بلکہ اپنی پائیداری،خوبصورتی اور معیاری ہونے کی بنا پر عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری سے دوسری کئی صنعتیں بھی پھل پھول رہی ہیں۔
ایک جائزے کے مطابق سلائی کرنے والے کارکنوں کو فی فٹ بال ایک ڈالر سے کم معاوضہ ملتا ہے ۔لیکن جب وہی فٹ بال مختلف مراحل سے گذرتا ہوا عالمی مارکیٹ میں صارف کے پاس پہنچتا ہے تو اس کی قیمت سو ڈالر تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔
فٹ بال بنانے کے لیے ایک کاریگر کو چمڑے کے چھ کونوں والے 20اور پانچ کونوں والے 12 ٹکڑوں کوجوڑ کرسینا اور اس میں ربڑ کا بلیڈر رکھنا ہوتاہے۔یہ تمام چیزیں اسے کمپنی کی جانب سے مہیا کی جاتی ہیں۔ اس شہر میں Adidas، Nike اور Puma جیسی عالمی شہرت کی حامل کمپنیوں کے لیے فٹ بال تیار کیے جاتے ہیں۔اور ان کے آرڈرز شہر کے ڈرائی پورٹ سے براہ راست بھیج دیے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں ہاتھ سے بنے ہوئے فٹ بال کی تقریباً 70 فی صد ضروریات پوری کرنے والے شہر میں اس صنعت کے آغاز کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ کہاجاتا ہے کہ لگ بھگ ایک صدی قبل جب جنوبی ایشیا پر برطانوی تاج کا راج تھا،مقامی چھاونی کے ایک برطانوی فوجی کرنل نے چمڑے کا فٹ بال مرمت کے لیے ایک مقامی کاریگر سید صاحب کو دیا۔ اس نے مرمت کرنے کےدوران فٹ بال کی خوب اچھی طرح جانچا، پرکھا اورپھر اس جیسا ایک فٹ بال خود بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ چھ کروڑ سالانہ فٹ بال تیار کرنے والے شہر کا پہلا فٹ بال تھا۔ان کے اعتراف میں سیالکوٹ کی ایک سڑک سید صاحب کے نام سے منسوب ہے۔
سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری کو لگ بھگ ایک ڈیڑہ عشرہ قبل چائلڈ لیبر کے الزام کی وجہ سے شدید مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور یورپی اور امریکی ملکوں میں ان کی برآمدات خطرے میں پڑ گئیں۔ مقامی انڈسٹری نے اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے۔ 1997ء میں انہوں نے یونی سیف اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے اٹلانٹا ایگری منٹ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت نگرانی کا ایک شفاف اور مربوط نظام قائم کیا گیا ہے اور متعلقہ عہدےدار، اچانک فٹ بال بنانے کے مراکز کا اچانک معائنہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے 93 فی صد تک چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہوچکاہے۔ انڈسٹری کی ان کوششوں کا اعتراف 1999ء میں جنیوا میں آئی ایل او کے سالانہ کنونشن میں بھی کیا گیا اور اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے اس اقدام کی تعریف کی۔
طویل عرصے تک دنیا بھر کی اعلی معیار کے فٹ بال کی ضروریات پوری کرنے والے سیالکوٹ کو اب جن ابھرتے ہوئے چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں سے ایک چین بھارت اور جاپان کا ایک حریف کے طورپر سامنے آنا ہے۔حالیہ ورلڈ کپ سے کئی مہینے قبل چین نہ صرف فٹ بال کے زیادہ ترعالمی آرڈرز جیتنے میں کامیاب ہوا بلکہ جنوبی افریقہ کے مقابلوں کے لیے اس کے بنائے ہوئے فٹ بال کو آفیشل فٹ بال کا درجہ بھی حاصل ہوگیا ہے۔ جب کہ گذشتہ ورلڈ کپ میں یہ اعزاز سیالکوٹ کے پاس تھا۔
فٹ بال انڈسٹری کے مقامی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس کی ایک اہم وجہ پاکستانی فٹ بال کی قیمتوں میں اضافہ اور آرڈرز کی مقررہ وقت پر عدم فراہمی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بجلی کا بحران اور اس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اس سلسلے میں بنیادی کردار ادا کررہاہے ۔ اور اس کے ساتھ امن و امان کی خراب صورت حال بھی کاروبار کو متاثر کررہی ہے کیونکہ دہشت گردی کے خوف سے بیرونی سرمایہ یہاں آنے سے کتراتے ہیں ۔عہدے داروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین اور دیگرملکوں میں اس صنعت میں جدید ٹکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال بھی ایک اہم چیلنج کے طور پر سامنے آرہاہے۔
صنعت سے وابستہ مقامی عہدے داروں کے مطابق توانائی کے بحران نے فٹ بال کی برآمدات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 2008ء اور اس سے پہلے کے برسوں میں 22 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی برآمدات کے مقابلے میں 2009 ء میں سیالکوٹ انڈسٹری صرف ساڑھے 16 کروڑ ڈالر کے آرڈرز پورے کرسکی ۔ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ جو 2008 ء تک 70/80 فی صد کے درمیان تھا، اب کافی کم ہوچکا ہے اور 2010 ء میں مزید کمی کے ساتھ 40 فی صد تک رہنے کا خدشہ ہے۔
عالمی مارکیٹ میں مشینوں پر جدید ٹکنالوجی کی مدد سے تیار کیے جانے والے فٹ بالوں کی بڑھتی ہوئی مانگ سے اپنا حصہ لینے کے لیے چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کا ترقیاتی ادارہ ساڑھے 43 کروڑ روپے کی لاگت سے سپورٹس انڈسٹریز ڈولپلمنٹ سینٹر قائم کررہاہے جہاں مقامی صنعت کو ترقی دینے کے لیے جدید ٹکنالوجی کے حوالے سے سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری کو توقع ہے کہ وہ مستقبل قریب میں ایک بار پھر اپنی سابقہ حیثیت بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔