’عمران خان کی رہائی فوج کے لیے بڑا دھچکا ہے‘

فائل فوٹو۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرارد دینے کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر عدلیہ موضوعِ بحث ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست کی سماعت کی اور انہیں عدالت میں طلب کیا۔

اس موقعے پر کمرۂ عدالت میں ججز اور عمران خان کے درمیان ہونے والے مکالمے سے متعلق باہر آنے والی تفصیلات پر بھی مختلف تبصرے سامنے آئے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے اپنے ٹوئٹ میں براہ راست چیف جسٹس آف پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نےچیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "آپ کو آج قومی خزانے کے 60 ارب ہڑپ کرنے والے وارداتیے سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور اس سے بھی زیادہ خوشی مجرم کو رہا کر کے ہوئی۔"

مریم نواز نے کہا کہ "ملک کی اہم ترین اور حساس تنصیبات پر حملوں کے سب سے بڑے ذمہ دار چیف جسٹس ہیں جو ایک فتنہ کی ڈھال بنے ہوئے ہیں اور ملک میں لگی آگ پر تیل چھڑک رہے ہیں۔"

انہوں نے چیف جسٹس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔

مریم نواز کی ٹوئٹ کے جواب میں تحریکِ انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے جوابی ٹوئٹ میں سخت ردعمل ظاہر کیا۔

انہوں نے مریم نواز پر الزام عائد کیا کہ وہ ملک میں لاقانونیت کی آگ بھڑکا کر ملک کو بدامنی کی دلدل میں دھکیلنا چاہتی ہیں۔

شیریں مزاری نے کہا کہ "مریم نواز کے چچا شہباز شریف کے اتحادیوں نے معیشت کا جنازہ نکالا اور ملک کا اربوں ڈالرز کا نقصان کیا۔"

عمران خان کی رہائی کے فیصلے پر ان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے بھی اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ بالآخر ہوش مندی دکھائی گئی ہے۔

'طے شدہ فیصلہ'

سپریم کورٹ کے فیصلے پر مسلم لیگ(ن) کی جانب سے سوشل میڈیا پر چیف جسٹس اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے آفیشل اکاؤنٹ سے ’ہتھوڑا گردی نا منظور‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ہیش ٹیگ کے تحت مسلم لیگ ن کے پیج سے عمران خان اور تحریکِ انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ اور صحافی عبدالقیوم صدیقی کے پی ٹی آئی رہنما خواجہ طارق رحیم کے ساتھ مبینہ فون کال لیک کے ٹوئٹس کو ری ٹوئٹ کیا جارہا ہے۔

اان آڈیو ٹیپس کے حوالے سے مسلم لیگ ن الزام عائد کررہی ہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے عمران خان کی رہائی کا فیصلہ طے شدہ تھا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹیم سے تعلق رکھنے والے موسی ورک کا کہنا ہے کہ آج سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے جن پر آج سے پہلے مریم نواز نے اعتراض نہیں کیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ آج پسند کا فیصلہ نہیں آیا تو مریم نواز کے میڈیا سیل نے انہیں بھی بنچ فکسنگ کا حصہ قرار دے دیا۔کیا انہیں ایک مخصوص جج کے علاوہ کوئی قابلِ قبول نہیں؟

'اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا'

سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کے باوجود حفاظتی تحویل میں رکھنے کے حکم پر بھی دل چسپ تبصرے سامنے آئے۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کالم نگار محمد تقی نے اپنے ٹوئٹ میں ایک شعر لکھا؛"اُس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا/کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے۔"

صحافی اور کالم نگار مشرف زیدی نے لکھا کہ آج چیف جسٹس نے تحریک انصاف کی جانب سے تشدد کی مذمت کی تردید کے لیے عمران خان سے درخواست کی۔ لیکن عمران خان نے یہ کہہ کر یہ درخواست ٹھکرادی کہ وہ جیل میں تھے اس لیے انہیں اس کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا اگرچہ انہوں نے کبھی تشدد کی تائید نہیں کی ہے۔

مشرف زیدی نے لکھا کہ اگر حکومتی وزرا آج کے بعد چیف جسٹس کے لیے رہی سہی نرمی بھی جلا کر راکھ نہ کرڈالیں تو انہیں حیرت نہیں ہوگی۔

صحافی نسیم زہرا نے عمران خان کے سپریم کورٹ میں پیش ہونے سے متعلق تبصرہ کیا کہ دلچسپ محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان باآسانی چل سکتے ہیں اور انہیں وہیل چیئر کی ضرورت نہیں تھی۔

'چیف جسٹس کا پیغام'

امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ سپریم کورٹ نے عمران خان کی فوری رہائی کا حکم دیا ہے۔ یہ فوج کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔

پاکستان میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار سلمان مسعود نے لکھا کہ فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کی سخت وارننگ اور تحریک انصاف کے کارکنان کی گرفتاریاں جاری رکھنے کے باجود عمران خان کی رہائی سے دو مفہوم اخذ کیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ یا تو رہائی کا فیصلہ پس پردہ مفاہمت کا نتیجہ ہے یا پھر مسقبل قریب میں کچھ انتہائی غیر متوقع ہونے والا ہے۔

سلمان مسعود نے لکھا کہ چیف جسٹس نے پہلے کرپشن کے الزامات کے باوجود ایک جج کو اپنے ساتھ بینچ میں شامل کرکے خاموش پیغام دیا تھا۔ آج انہوں نے قدرے واضح پیغام دیا ہے۔