پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے 'سوشل میڈیا ریگولیشن' کی منظوری کو مختلف حلقے آزادی اظہار پر قدغن قرار دے رہے ہیں۔
نئے قانون کے تحت جہاں سوشل میڈیا کمپنیز کو پاکستان میں خود کو رجسٹرڈ کرانے سمیت اسلام آباد میں دفتر کھولنے جیسی ہدایات شامل ہیں۔ وہیں اس کا اطلاق ان صارفین پر بھی ہو گا جو یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خاصے مقبول ہیں۔ اُنہیں بھی خود کو رجسٹرڈ کرانا ہو گا۔
نئے قانون کے تحت ان افراد کی پکڑ ہو گی جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مدد سے قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے خلاف بات کرتے ہیں۔
سماجی حلقوں میں چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ اس قانون کا مقصد اُن آوازوں کو دبانا ہے جو سوشل میڈیا کا سہارا لے کر حکومت پر تنقید کر رہی ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر اپنا ایک خاص حلقہ رکھتی ہیں۔
صحافی طلعت حسین ان دنوں کسی نیوز ٹی وی چینل سے تو وابستہ نہیں ہیں البتہ وہ اپنا سوشل میڈیا چینل چلا رہے ہیں اور اسی کی مدد سے ملکی سیاسی، معاشی اور دیگر امور پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے سوشل میڈیا ریگولیشن پر تنقید کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ فیس بک، یوٹیوب، ٹوئٹر وغیرہ سب ریاستی بوٹ کے نیچے آگئے ہیں۔ عمران بچاؤ، عوام نچاؤ مہم کا یہ ابتدائیہ ہے۔
ان کے بقول، ایک ناکام تجربہ اب جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے کامیاب دکھایا جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کو بری طرح دبایا جا رہا ہے اور یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاہ ترین تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آپ اپنی شرمساری کو چھپا سکتے ہیں لیکن کیا آپ حقیقت کو بھی چھپا سکتے ہیں؟
صحافی اور یوٹیوبر مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا سے متعلق نئے قواعد پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات غصب کرنے کے مترادف ہے۔
ان کے بقول نئی قانون سازی کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بنیادی حقوق کے صریحاً خلاف ہے۔
انہوں نے وفاقی کابینہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "بابوؤں نے پارلیمنٹ کی طرح پیش آنے کی کوشش کی ہے۔"
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر نگہت داد کا کہنا ہے کہ یہ قوانین آ گئے تو ہر کوئی اس میں پِس جائے گا۔
اُن کے بقول قوانین بنانا آسان ہے اور جب اس کا اطلاق ہوتا ہے اور لوگوں کے پاس اختیارات آجاتے ہیں تو وہ اپنے طریقے سے قومی سلامتی، اخلاقی و سماجی قدروں کی تعریفیں کرتا ہے۔
سوشل میڈیا ریگولیشن کے اطلاق سے وہ افراد بے فکر ہیں جو طنز و مزاح سے متعلق یوٹیوب چینلز چلا رہے ہیں۔
کاشان نامی یوٹیوبر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چونکہ نہ تو حکومت کے خلاف کوئی بات کرتے ہیں اور نہ ایسا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے اُنہیں سوشل میڈیا ریگولیشن کے نفاذ سے کوئی خوف نہیں ہے۔
اُن کے بقول حکومت کے اندررونی حلقوں میں ان کے رابطے ہیں۔ تاہم وہ فوری طور پر حکومت کے نئے قواعد سے متاثر نہیں ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا قواعد
وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ نے بدھ کو سوشل میڈیا قواعد میں ترمیم کی منظوری دی جس کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ نئے قواعد کو الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
نئے قواعد کے تحت قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں کو قابلِ اعتراض مواد پر کارروائی کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔
نئے قواعد کے مسودے کے مطابق تمام بین الاقوامی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک اور ڈیلی موشن سمیت دیگر تمام کمپنیوں کو تین ماہ کے اندر رجسٹریشن کرانا لازم ہو گا۔ مذکورہ کمپنیوں نے اسلام آباد میں دفتر کھولنے سمیت ایک رابطہ افسر بھی تعینات کرنا ہو گا۔
سوشل میڈیا کمپنیز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے 'نیشنل کو آرڈینیشن اتھارٹی' بنائی جائے گی جو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے والے مواد کی نگرانی کرے گی۔
کوآرڈینیشن اتھارٹی کو پسند نہ آنے والے مواد کو سوشل میڈیا کمپنیوں کو ہٹانا ہوگا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کی پاکستان میں سروسز معطل کر دی جائیں گی یا 50 کروڑ روپے تک جرمانہ ہو گا۔