|
تیس سالہ درویش دشتی بھی ان 28 افراد میں شامل ہیں جو پیر اور منگل کی درمیانی شب بلوچستان کے ضلع واشک میں ایک بس حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
درویش عزیز دشتی ضلع کیچ کے صدر مقام تربت میں گزشتہ سات برس سے 'اسکول فار آل' کے نام سے ایک ادارہ چلاتے تھے جس میں تربت کے 400 سے زائد یتیم اور نادار بچوں کو مفت تعلیم کے علاوہ اُن کی مالی معاونت بھی کی جاتی تھی۔
درویش کے ایک قریبی ساتھی اسد بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ کئی برسوں تک خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کرتے رہیں اور بعد میں تربت آ کر اپنی پوری جمع پونجی بچوں کو مفت تعلیم کی فراہم پر صرف کر دی۔ وہ اس مقصد کے لیے مخیر حضرات سے چندہ بھی اکھٹا کرتے تھے۔
اسد بلوچ کے بقول درویش کا آبائی علاقہ دشت ہے تاہم بعد میں وہ سماجی کاموں کے سلسلے میں تربت شہر منتقل ہو گئے تھے۔
اسد نے بتایا کہ گزشتہ شب بھی درویش اپنے ادارے کے کچھ کاموں کے سلسلے میں تربت سے کوئٹہ جانے والی بس میں روانہ ہوئے جو واشک کے قریب ٹریفک حادثے کا شکار ہو گئی۔
انہوں نے بتایا کہ درویش بلوچ کی ہلاکت سے 400 سے زائد طلبہ کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہونے کا خدشہ ہے۔
حادثے میں طلبہ کی ہلاکت، 10 روزہ سوگ کا اعلان
مکران میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل وحید بلیدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بس حادثے میں میڈیکل کالج کے دو طالب علم چراغ بلوچ اور شاہ فیصل بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "دل ہلا دنے والے واقعے میں کالج کے دو طالب علموں کی ہلاکت نے سب کو غمزدہ کیا ہے۔"
کالج کے دو طلبہ کی اندوہناک واقعے میں ہلاکت پر انتظامیہ نے 10 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے اس دوران کالج میں تمام تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں گی۔
چراغ بلوچ کے ایک قریبی ساتھی وارث دشتی نے بتایا کہ 19 سالہ چراغ اسلم بلوچ نے حال ہی میں میڈیکل کالج تربت میں داخلہ لیا تھا۔ وہ ایک ہونہار طالب علم تھے اور ان کے والدین محنت مزدوری کر کے انہیں ڈاکڑ بنانا چاہتے تھے۔
حادثہ کیسے پیش آیا؟
لیویز حکام کے مطابق منگل کی شب شام چھ بجے مسافر بس تربت سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئی اور بس کو حادثہ تربت سے تقریباً 557 کلو میٹر دور این 85 قومی شاہراہ پر ضلع واشک کے علاقے بسیمہ میں پیش آیا۔
تربت بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے تقریباً 763 کلو میٹر دور ہے بلوچستان کے جنوبی علاقے میں واقع ہے۔ یہاں سے روزانہ دیگر مسافروں کے علاوہ طلبہ کی بھی بڑی تعداد مسافروں بسوں کے ذریعے کوئٹہ تک سفر کرتے ہیں۔
لیویز ذرائع کے مطابق حادثہ تیز رفتاری کے باعث پیش آیا جس کے باعث بس بے قابو ہو کر کھائی میں جا گری۔
بس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
حادثے کے شکارہونے والے دیگر 22 زخمی مسافروں کو بسیمہ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں چھ زخمی افراد کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
میڈیکل ایمرجنسی ریسپانس سینٹر بلوچستان کی جانب سے وائس آف امریکہ کو فراہم کردہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں رواں سال جنوری سے اب تک پانچ ماہ کے دوران سات ہزار سے زائد حادثات ہو چکے ہیں۔
ان حادثات میں نو ہزار سے زائد افراد زخمی جب کہ 187 ہلاک ہو گئے۔
بلوچستان میں ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟
بلوچستان میں ٹریفک حادثات کے حوالے سے ڈیٹا اکھٹا کرنے کے ادارے بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کے سربراہ نجیب زہری کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر حادثات کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی اصل تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ٹریفک حادثات کی بنیادی وجہ تنگ سڑکیں ہیں جن پر زیادہ ٹریفک ہوتا ہے۔ یہاں کوئی دو رویہ سڑک یا موٹروے موجود نہیں ہے۔
ان کے بقول ان تنگ سڑکوں پر ٹریفک کا حجم بڑھ گیا ہے بڑی مال بردار گاڑیاں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جب کہ غیر تربیت یافتہ ڈرائیوز بھی بلوچستان میں ٹریفک حادثات کی بڑی وجہ ہیں جن کو کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا جاتا خاص طور پر ہیوی اور پبلک لائنس کے اجرا کے نظام کا ناقص ہونا ہے۔
نجیب نے بتایا کہ تمام قومی شاہراہوں ہر موٹر وے پولیس کی تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے بھی تیز رفتاری پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں کی جانب جانے والے اوور لوڈ مسافر گاڑیاں بھی ٹریفک حادثات کا باعث بنتی ہیں جس میں اکثر ایرانی اشیا خورونوش اور پیٹرول لایا جاتا ہے۔