پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور مبینہ عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں دو عسکریت پسند اور دو سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔ حکام نے دو مبینہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے پیر کو جاری بیان میں کہا ہے کہ جھڑپ اتوار کو شمالی وزیرستان کے علاقے اسپین وام میں ہوئی تھی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق جھڑپ میں دو عسکریت پسند ہلاک ہوئے جب کہ دو کو گرفتار کر لیا گیا۔
فوج نے بیان میں دو اہلکاروں کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی ہے۔ بیان میں جدید اسلحہ اور بارودی مواد برآمد کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔ جھڑپ کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن بھی کیا گیا۔
اس جھڑپ کےحوالے سے کسی عسکریت پسند گروہ یا کسی شدت پسند تنظیم سے وابستہ فرد نے کسی قسم کا بیان جاری نہیں کیا اور نہ ذمہ داری قبول کی۔
فوج اور عسکریت پسندوں میں یہ جھڑپ ایک ایسے موقع پر ہوئی جب ایک روز قبل اتوار کوجنوبی اضلاع لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ ساتھ وسطی ضلعے مردان میں پولیس کے تھانوں پر حملوں میں چھ اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
SEE ALSO: دو برس قبل تک تقسیم کا شکار ٹی ٹی پی دوبارہ منظم کیسے ہوئی؟لکی مروت میں ایک پولیس موبائل کو دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا، جس سے گاڑی میں سوار ایس ایچ او سمیت چار اہلکار زخمی ہوئے۔لکی مروت سے ملحقہ ڈیرہ اسماعیل خان کے تھانہ کلاچی کی حدود روڑی پولیس چیک پوسٹ پرحملے میں ایک اہلکار زخمی ہوا ۔ اس حملے میں چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ مردان شہر کے نواح میں دبئی اڈہ پولیس چوکی پر فائرنگ سے ایک اہلکار زخمی ہوا ۔
لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان میں حملوں کی ذمہ داری سرحد پار افغانستان میں روپوش کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے علیحدہ علیحدہ جاری بیانات میں قبول کی۔
اتوار کو پشاور سے ملحقہ ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں کرکٹ کے ایک معروف کھلاڑی اور ایک اکیڈمی کے مالک جبکہ شمالی وزیرستان میں ایک قبائلی رہنما کو گھات لگا کر قتل کیا گیا۔
دہشت گردی کے واقعات میں اضافے پر مبصرین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: خیبرپختونخوا: بھتہ خوری کے بڑھتے واقعات، پولیس کا خصوصی سیل قائم کرنے کا فیصلہخیبرپختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اور پولیس سابق افسر سید اختر علی شاہ نے کہا کہ اب تک کالعدم شدت پسند تنظیم پاکستان طالبان کے خلاف افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے بظاہر کسی قسم کی کارروائی کا عندیہ نہیں دیا ۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں روپوش عسکریت پسند کابل میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد دن بدن متحرک ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان کا اب افغان طالبان پر اثر رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے، جس کے لیے اب پاکستانی حکام کو سر جوڑ کر سوچنا چاہیے۔
سابق سیکریٹری داخلہ کے مطابق دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے حکومت کو ماضی کی ناکام حکمتِ عملی کے بجائے عوامی امنگوں پر مبنی فیصلے کرنا ہوں گے ۔