صومالیہ میں حکام کا کہنا ہے کہ اُنھوں نےالشباب کےمطلوب ترین کمانڈروں میں سے ایک کو پکڑ لیا ہے۔
ذکریا اسماعیل ہرسی کو ہفتے کے روز کینیا کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب واقع ایک قصبے، الوک میں مارے گئے ایک چھاپے کے دوران پکڑا گیا۔
جنوبی غدون کے علاقے سے صومالی حکومت کے کمانڈر، جنرل عباس ابراہیم غرے نے ’وائس آف امریکہ‘ کی صومالی سروس کے ہارون معروف کو بتایا کہ سرکاری کارندوں کو یہ اطلاع ملی تھی کہ الشباب کا یہ مشتبہ شدت پسند ایک گھر میں چھپا ہوا ہے۔
غورے نے کہا کہ ہرسی کو اُن کے ایک ساتھی کے ہمراہ پکڑا گیا۔ جنرل نے بتایا کہ چھاپے کے دوران، ہرسی نے کوئی مزاحمت نہیں دکھائی، جن کے پاس سے ایک پستول بھی برآمد ہوا ہے۔
جون، سنہ 2012 میں، امریکہ نے ہرسی کے سر کی قیمت 30 لاکھ ڈالر مقرر کر رکھی تھی، جنھیں اُنھوں نے الشباب کے سابق لیڈر، احمد عبدی گودانی کا ایک ساتھی قرار دیا۔
حراست کے دوران، ہفتے کو ’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، ہرسی نے اِس بات کی تصدیق کی کہ وہ الشباب کے راہنما ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ قیادت سے اختلافات کے نتیجے میں،وہ 18 ماہ قبل اس گروہ سے الگ ہوگئے تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ اُنھیں اِس بات کا علم نہیں کہ اُن کو پکڑنے پر کوئی انعام رکھا گیا ہے۔
ہرسی نے کہا کہ وہ کبھی بھی الشباب کے انٹیلی جنس سربراہ نہیں رہے، جیسا کے پہلے اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے دیگر عہدوں پر ضرور کام کیا ہے، جن میں علاقائی منتظم اعلیٰ کا منصب، اور اس کے علاوہ، الشباب ملیشیاؤں کے کمانڈر کا عہدہ سنبھالنا شامل ہے۔