صومالیہ: چھ علاقے قحط زدہ، قیمتیں دسترس سے باہر

فائل

جمعرات کے دِن حکومت نے500000 ڈالر کی مالیت سے خشک سالی کے امدادی فند قائم کرنے کا اعلان کیا؛ اور خوراک اور پانی کی بڑھتے ہوئی کمی سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اعانت کی اپیل جاری کی

حکومت ِصومالیہ نے سرکاری طور پر چھ علاقوں کو خشک سالی کا شکار قرار دیا ہے، ایسے میں جب مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں خوراک کے نرخ تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔

جمعرات کے دِن حکومت نے500000 ڈالر کی مالیت سے خشک سالی کے امدادی فند قائم کرنے کا اعلان کیا؛ اور خوراک اور پانی کی بڑھتے ہوئی کمی سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اعانت کی اپیل کا اعادہ کیا۔

صومالی وزیر زراعت، عبدی احمد محمد نے ’وائس آف امریکہ‘ کی صومالی سروس کو بتایا کہ حکام اس بات کے خواہاں ہیں کہ تین برس قبل درپیش آنے والے شدید قحط کی صورت حال سے بچا جاسکے، جس میں 200000سے زائد صومالی ہلاک ہوگئے تھے اور لاکھوں لوگ کینیا اور ایتھیوپیا کے ہمسایہ ممالک کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

عبدی احمد محمد کے بقول، حکومت کے اس اقدام کا مقصد 2011ء کی صورت حال کی تباہ کاریوں سے بچنا ہے، اور اپنے اداروں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ قحط زدہ افراد کی حمایت اور اعانت کے لیے درکار فوری اقدام کے لیے چوکنہ رہا جائے۔


قحط کی صورت حال کا انتباہ جاری کرنے والے ادارے نے جمعے کو متنبہ کیا کہ متعدد علاقوں میں خوراک کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس صورت حال کا سبب وہ قبائل کی آپسی جنگ و جدل کو قرار دے رہے ہیں، اور ساتھ ہی الشباب کے شدت پسندوں کی کارستانی، جس میں حکومتی کنٹرول والے قصبہ جات سے رابطے کاٹنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔


اعلان میں کہا گیا ہے کہ زدور کی طرف بکول کے علاقے کے ایک حصے میں، گذشتہ سال جون کے مقابلے میں، اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں 142 فی صد کی شرح سے اضافہ آیا ہے۔


امریکی اعانت سے چلنے والے اس ادارے نے توجہ دلائی ہے کہ چند علاقوں تک انسانی بنیادوں پر رسائی ’تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے‘ اور مخبروں نےاطلاع دی ہے کہ غذا کی عدم دستیابی پریشان کُن حد تک بڑھ گئی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ جن علاقوں کو قحط کا سامنا ہے اُن میں گیدو، بکول، گلگدود، ہیران اور نشیبی اور وسطی شبیل شامل ہیں۔