صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں حکومت اور افریقین یونین کی فورسز کی طرف سے ایک سابق جنگجو سردار کی حامی ملیشیاء پر حملے کے بعد لڑائی پھوٹ پڑی جس سے کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔
ایک خوفزدہ شہری وجدیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُس نے فائرنگ کی آواز سنی جس کی شدت بہت زیادہ تھی۔
سابق جنگجو سردار احمد حسن نے وائس آف امریکہ کی صومالی سروس کو بتایا کہ یہ جھڑپیں اُس وقت شروع ہوئیں جب سرکاری فورسز نے اُن کے گھر پر حملہ کیا۔
افریقین یونین کے مطابق سکیورٹی فورسز احمد حسن کے گھر کے قریب سے اسلحہ قبضے میں لینے کے لیے کارروائی کر رہی تھیں کہ ملیشیا نے اُن پر حملہ کر دیا۔
امن فوج اور صومالیہ کی فورسز نے شدت پسند تنظیم کے خلاف رواں ماہ کارروائیاں شروع کی تھیں۔
سینیئر پولیس افسر میجر عبداللہ فارح نے خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کو بتایا کہ لوگوں کے پاس غیر قانونی اسلحہ ہے اور شہر میں ملیشیا یعنی غیر قانونی گروہوں کے درجنوں افراد موجود ہیں۔
موغادیشو کے ایک رہائشی نے کہا کہ اُنھوں نے جمعہ کو مارٹر گولے داغنے کی آواز سنی جس کے بعد بظاہر الشباب کے جنگجو وہاں سے فرار ہو گئے۔
اطلاعات کے مطابق تازہ کارروائی میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
الشباب کی طرف اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
موغادیشو کے بیشتر حصے پر 2011ء تک الشباب کے جنگجوؤں کا قبضہ تھا لیکن افریقن فورسز نے اُنھیں دارالحکومت اور شہروں سے باہر دھکیل دیا تھا۔
لیکن اس کے باجود الشباب کے جنگجو چھپ کر حملے کرتے رہے ہیں۔ صومالیہ کو دو دہائیوں سے بحران کا سامنا ہے۔