عالمی بینک نے منگل کو کہا ہے کہ توقع ہے کہ جنوبی ایشیا کی معیشت اس سال 5.8 فیصد تک ترقی کرے گی جس کے نتیجے میں وہ دنیا بھر میں تیز ترین رفتار سے ترقی کرنے والا خطہ بن جائے گا اگرچہ یہ رفتار کرونا کی عالمی وبا کے دور سے قبل کے مقابلے میں پھر بھی کم رہے گی۔
جنوبی ایشیا کی تازہ ترین معاشی ترقی کے بارے میں عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ خطے میں 2024 اور 2025 میں اس کی رفتار قدرے سست ہو کر 5 اعشاریہ چھ فیصد تک ہو گی کیونکہ کرونا وائرس کےبعد کی بحالی کی رفتار کم ہو جائےگی اور عالمی طلب میں کمی اس کی اقتصادی سر گرمی پر اثر انداز ہو گی ۔
ادارے میں جنوبی ایشیا سے متعلق چیف اکانومسٹ فرانزسکا اوہنسورج نے کہا ہے کہ اس سال خطہ لگ بھگ 6 فیصد شرح نمو کے ساتھ دوسری تمام ابھرتی ہوئی منڈیوں کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ افراط زر اور شرح سود کے بلند درجوں نے بہت سی ابھرتی ہوئی منڈیوں کو متاثر کیا ہے لیکن جنوبی ایشیا بظاہر ترقی کررہا ہے ۔
فرانزسکا نے مزید کہا کہ پھر بھی یہاں کے تمام ملکوں میں کرونا وبا سے قبل کے درجوں کی نسبت افزائش کی یہ رفتار سست ہے ۔اور یہ اتنی تیز نہیں ہے کہ ان مختلف ترقیاتی اہداف کو پورا کر سکے جو خطے کے ملکوں نے طے کیے ہیں ۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ترقی کے باوجود خطے کو ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے ۔ جنوبی ایشیا میں فی کس آمدنی دو ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے جو کہ مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے کی سطح کا پانچواں حصہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق موجودہ شرح نمو، اگرچہ بلند ہے لیکن جنوبی ایشیائی ملکوں کے لیے یہ اتنی کافی نہیں ہے کہ ایک نسل کے اندر اعلیٰ آمدنی کا درجہ حاصل کر سکیں ۔ اس کےعلاوہ ضروری نہیں کہ سب کی ترقی کی رفتار برابر ہو۔
بھارت 2023-2024 کے مالی سال میں 6 اعشاریہ 3 فیصد کی شرح نمو کے ساتھ بدستور سرگرم رہے گا۔ جب کہ مالدیپ اور نیپال جیسے دوسرے ملک بھی توقع ہے سیاحت کی بحالی کی وجہ سے ترقی کریں گے ۔
SEE ALSO: عالمی معیشت اس سال بڑی حد تک سست روی کا شکار رہے گی، ورلڈ بنکلیکن دوسرے ملکوں میں حالات نسبتاً خراب ہیں ۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی شرح نمو سست ہو کر 5.6 فیصد تک ہو سکتی ہے، جب کہ پاکستان جس کی شرح نمو صرف ایک اعشاریہ سات فیصد ہے ،اس کی کی ترقی کا تخمینہ — اس کی آبادی میں اضافے کی شرح سے کم ہے۔
سری لنکا، جس کی معیشت گزشتہ سال تباہ ہو گئی تھی، ایک شدید کساد بازاری سے آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے، لیکن آئی ایم ایف نے گزشتہ ہفتے اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد کہ ملک اقتصادی اصلاحات میں خاطر خواہ پیش رفت کرنے میں ناکام رہا ہے، اس کے ایک فنڈنگ پیکج کی دوسری قسط کا اجرا روک دیا ہے ۔
SEE ALSO: بحران میں مبتلا سری لنکا کے لیے ورلڈ بینک کی 70 کروڑ ڈالر کی منظوریورلڈ بینک نے کہا کہ ایک اور تشویش یہ تھی کہ 2022 میں جنوبی ایشیائی ممالک میں سرکاری قرضہ مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا اوسطاً 86 فیصد رہا جو کہ دوسری ابھرتی ہوئی منڈیوں سے زیادہ ہے۔ اس نے مزید کہا کہ زیادہ قرض ڈیفالٹ کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے اور قرض لینے کے اخراجات میں اضافہ کر سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کی معیشت کی سست روی بھی خطے کے معاشی منظر نامے کو متاثر کر سکتی ہے اور اس پر قدرتی آفات مزید برے اثرات مرتب کر سکتی ہیں جو آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث پہلے سے زیادہ تعداد اور پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ واقع ہو رہی ہیں ۔
اوہنسورج نے کہا کہ جنوبی ایشیا کی حکومتیں متبادل توانائی کے مواقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے مالی حالات بہتر کر سکتی ہیں جو نئےروزگار پیدا کر سکتے ہیں، توانائی کی درآمدات پر انحصار کم کر سکتے ہیں اور آلودگی کی سطح میں کمی لا سکتے ہیں ۔
SEE ALSO: بھارت 2040 کے بعد تک کوئلے کا استعمال جاری رکھے گاعالمی بینک نے کہا کہ " خطے کے کارکنوں کا تقریباً دسواں حصہ آلودگی سے بھرپور ملازمتوں میں کام کر تا ہے " جن میں سے بیشتر میں بے قاعدہ اور کم ہنر مند کارکن کام کرتے ہیں ۔ یہ کارکن لیبر مارکیٹ میں ہونے والی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ اوہنسورج نے مزید کہا کہ یہ خطہ فی الحال توانائی کی بچت والی ٹیکنالوجیز کو اپنانے اور مزید ماحول دوست ملازمتیں پیدا کرنے میں دوسروں سے پیچھے ہے۔
عالمی بینک نےمنگل کو بھارت کی ترقی سےمتعلق اپنے تازہ ترین اعدادو شمار بھی جاری کیے جن سے پتہ چلا کہ ایک مشکل اقتصادی ماحول مشکل عالمی اقتصادی حالات کے باوجود بھارت گزشتہ مالی سال کے دوران سات اعشاریہ دو فیصد کی شرح کے ساتھ تیز ترین ترقی کرنے والی بڑی معیشتوں میں سے ایک تھا ۔ اس کے نتیجے میں وہ گروپ بیس کے ملکوں میں دوسرے نمبر پر رہا اور اس کی معیشت ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی معیشتوں کی اوسط سے تقریباً دوگنی رہی ۔
وہ 20 ممالک کے گروپ میں دوسرے نمبر پر اور ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی معیشتوں کے اوسط سے تقریباً دوگنا تھا۔
بلند شرح سود، جغرافیائی سیاسی کشیدگیوں اور سست عالمی طلب کے باعث توقع ہے کہ عالمی چیلنجوں کا سلسلہ جاری رہے گا جس کے نتیجے میں امکان ہے کہ درمیانی مدت میں مجموعی اقتصادی نمو سست رہے گی ۔ عالمی بینک نے رواں مالی سال کے لیے بھارت کی مجموعی قومی پیداوار ،جی ڈی پی کی شرح نمو 6.3 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے، جس کی وجہ بنیادی طور پر بیرونی عوامل اور COVID-19 وبائی امراض کے بعد مانگ میں کمی کو قرار دیا گیا ہے۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سےلیا گیا ہے)