بھارت اور چین کے درمیان لداخ کے معاملے پر کشیدگی اور جھڑپوں کے بعد جنوبی ایشیا میں نئی سیاسی صف بندی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ تنازع پر بھارت کی بھرپور حمایت کر رہا ہے جب کہ پاکستان اور چین اس معاملے میں ایک اکھٹے ہیں۔
امریکی حکام نے خطے میں کشیدگی کا ذمہ دار چین کو ٹھیراتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سمیت ملائیشیا، انڈونیشیا اور فلپائن جیسے ملکوں کو چین سے خطرہ ہے۔
مائیک پومپیو نے چند روز قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ان خطرات کے پیشِ نظر امریکہ اپنی افواج کی عالمی تعیناتی کا جائزہ لے رہا ہے۔ وہ یورپ میں اپنی فوج کم کر کے انہیں دوسرے مقامات پر تعینات کرے گا تاکہ درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔
جب مائیک پومپیو سے پوچھا گیا کہ امریکہ جرمنی میں اپنی افواج کیوں کم کر رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہاں سے فوجیوں کو ہٹا کر دیگر مقامات پر تعینات کیا جائے گا۔ ان کے بقول چین کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی بھارت، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے لیے خطرہ ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد جنوبی ایشیا میں دو نئے بلاک بننے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ایک چین اور پاکستان جب کہ دوسرا بھارت اور امریکہ۔
ایک وقت تھا جب جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک بھارت اور پاکستان دو الگ الگ کیمپوں کے رکن مانے جاتے تھے۔ بھارت سوویت یونین موجودہ (روس) کے ساتھ تھا تو پاکستان کے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔
لیکن رفتہ رفتہ عالمی حالات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ کئی حلیف حریف اور کئی حریف حلیف بن گئے۔
سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد رفتہ رفتہ بھارت امریکہ کے قریب ہو گیا اور اب دونوں کے درمیان اسٹرٹیجک تعاون بھی بڑھ گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دور میں بھارت اور امریکہ کے درمیان ہونے والے جوہری تعاون کے معاہدے کے ساتھ اسٹرٹیجک اور وسیع تر تعلقات کے قیام کی جو بنیاد رکھی گئی تھی وہ نریندر مودی کے دور میں کافی مضبوط ہوئی ہے۔
بھارت کے سابق سفارت کار اور تجزیہ کار راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ چین اور پاکستان کے درمیان اتحاد کا قائم ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن بھارت کا معاملہ دوسرا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ”1947 سے ہی بھارت ہر معاملے میں ایک آزادانہ موقف رکھتا آیا ہے اور وہ اب بھی اسی پر قائم ہے۔ وہ کسی ملک کے ساتھ کوئی ایسا اتحاد قائم کرے گا کہ وہ کیمپ کی شکل لے لے، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔"
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات میں امریکہ کا جھکاؤ بھارت کے موقف کی جانب ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔
ان کے بقول صدر ٹرمپ بھی بھارت چین کشیدگی کے سلسلے میں بھارت کی حمایت میں بیان دے چکے ہیں۔
اسی درمیان دہشت گردی کے معاملے پر امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جو سالانہ رپورٹ جاری کی گئی ہے اس میں پاکستان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے افغانستان اور بھارت کے خلاف سرگرم دہشت گردوں اور ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ پاکستان نے اس رپورٹ پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان اور چین کے رشتے کافی گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ چین نے متعدد مواقع پر اور عالمی فورمز پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ خواہ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کا معاملہ ہو یا جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا معاملہ ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے ممبئی کے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار حسن کمال اس سے متفق نہیں ہیں کہ جنوبی ایشیا میں دو کیمپ بن رہے ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے حوالے سے کہا کہ امریکہ جنوبی ایشیا سے نکل چکا ہے اب وہ یہاں نہیں آئے گا۔
انہوں نے مائیک پومپیو کے بیان کے حوالے سے کہا کہ دراصل امریکہ جرمنی سے اپنی فوج کو نکالنا چاہتا ہے اسی لیے انہوں نے اس قسم کا بیان دیا ہے۔
حسن کمال کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ بھارت اور چین کے درمیان مفاہمت کرانے کی بات کرتے ہیں لیکن چین کے اقدامات کی کھل کر مذمت نہیں کرتے۔ ان کے بقول امریکہ کی جانب سے بیان بازی ہوتی رہتی ہے۔ صدر ٹرمپ کبھی کوئی بیان دیتے ہیں تو کبھی کوئی۔
لیکن ایک اور تجزیہ کار اے یو آصف کسی حد تک جنوبی ایشیا میں دو بلاک بننے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اُن کے بقول امریکہ کی ہمیشہ سے 'امریکہ فرسٹ' کی پالیسی رہی ہے۔ لہذٰا امریکہ اپنے مفادات کو سامنے رکھے گا اور ان کے مطابق ہی اقدامات اُٹھائے گا۔
خیال رہے کہ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی مقام لداخ میں جھڑپوں کے بعد کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ دونوں ملکوں نے کشیدگی ختم کرنے پر اتفاق کے باوجود علاقے میں اپنی فوجی قوت میں اضافہ کیا ہے۔