پاکستان کے دفترِ خارجہ نے امریکہ کے محکمہ خارجہ کی دہشت گردی سے متعلق رپورٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام سے متعلق پاکستان کی کوششوں کے بارے میں امتیاز اور تضادات پر مبنی ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے محکمہ خارجہ کی بدھ کو دہشت گردی سے متعلق جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ سال دہشت گردوں کے خلاف کچھ کارروائیاں ضرور کی ہیں لیکن افغانستان اور بھارت کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروہوں کے لیے پاکستان محفوظ پناہ گاہ بنا رہا۔
حالیہ رپورٹ میں 2019 کی رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں مثبت کردار ادا کیا ہے لیکن پاکستان نے اب تک بھارت اور افغانستان کے خلاف سرگرم شدت پسند گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کی۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے رپورٹ پر جمعرات کو ردِ عمل میں کہا کہ رپورٹ میں یہ بات اگرچہ تسلیم کی گئی ہے کہ خطے میں القاعدہ بہت ہی کمزور ہو گئی ہے تاہم القاعدہ کو ختم کرنے میں پاکستان کے کردار کا ذکر نہیں ہے۔ القاعدہ کے خاتمے کے نتیجے میں دنیا کو دہشت گردوں سے درپیش خطرہ کم ہوا ہے۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن رپورٹ یہ بتانے سے قاصر رہی کہ یہ صرف اسی لیے ممکن ہوا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھرپور کارروائیوں میں کالعدم تنظیموں اور گروہوں کو بلا تفریق نشانہ بنایا۔
دفتر خارجہ کی ترجمان کے مطابق پاکستان ایک خود مختار ریاست ہونے کے ناطے اپنے بین الاقوامی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین پر شدت پسندوں کی کسی بھی محفوظ پناہ گاہ کے تاثر کو رد کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی بھی گروہ کو کسی ملک کے خلاف اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
دفتر خارجہ کی ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان کو بیرونی حمایت یافتہ تحریک طالبان پاکستان اور داعش جیسے گروہوں کا سامنا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 1267 کے تحت دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں اور افراد کے اثاثے منجمد کرنے اور ان کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔
ترجمان کے بقول رپورٹ میں پاکستان میں کالعدم تنظیموں کے متعدد رہنماؤں کے خلاف مقدمات اور سزاؤں کا سرسری طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی تنظیم کے تجویز کردہ ایکشن پلان کے تحت انتظامی سطح پر کئی اصلاحات کی ہیں۔ جب کہ اس بات کو ایف اے ٹی ایف نے بھی تسلیم کیا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ افغان امن عمل میں پاکستان کے تعاون کو پوری طرح اجاگر کرنے سے قاصر رہی ہے۔ پاکستان کے تعاون کی وجہ سے افغانستان میں پائیدار امن کے امکانات پید اہوئے ہیں۔
ترجمان کے بقول پاکستان کے مثبت کردار کو امریکہ اور اس کی قیادت سمیت وسیع طور پر سراہا جاتا ہے جس کے نتیجے میں رواں سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا۔
پاکستان نے توقع ظاہر کی ہے کہ مستقبل میں سامنے آنے والی امریکہ کی رپورٹوں میں انسداد دہشت گردی کی پاکستان کی کوششوں کو پوری طرح تسلیم کیا جائے گا۔
اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز سے منسلک بین الاقوامی امور کے ماہر نجم رفیق کا کہنا ہے کہ امریکہ کی دہشت گردی سے متعلق رپورٹ کا تعلق افغانستا ن سے زیادہ کشمیر کے معاملے سے ہے۔
نجم رفیق کے بقول امریکہ کا پاکستان سے متعلق ایک پالیسی تضاد ہے۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک بھی کرنا چاہتا ہے اور نہیں بھی کرنا چاہتا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو پاکستان کے حوالے سے دہشت گردی سمیت کئی معاملات پر تحفظات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کل امریکہ کی بھارت کے ساتھ ایک اسٹریٹجک شراکت داری بھی ہے اور امریکہ سمجھتا ہے کہ بھارت کے طرف سے پاکستان پر خاص طور پر کشمیر کے حوالے سے دباؤ ڈالا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کی مدد کی ہے ۔ لیکن بھارت کے حوالے سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ پاکستان کشمیر سے متعلق معاملات کو کنٹرول کر ے۔
ان کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ہمیشہ اعتماد کا فقدان رہا ہے۔ پاکستان امریکہ تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ جب واشنگٹن کو طالبان سے بات چیت کے لیے پاکستان کی ضرورت تھی تو اسلام آباد کے ساتھ تعلقات درست کر لیے گئے لیکن جب امریکہ یہ دیکھ رہا ہے کہ افغان امن عمل ایک سمت میں گامزن ہو گیا ہے لہذا وہ سمجھتا ہے کہ اس کو پاکستان کی ضرورت نہیں۔ اس لیے پاکستان کو دباؤ میں رکھا جائے۔
نجم رفیق نے بتایا کہ امریکہ کی دہشت گردی کے حوالے جاری ہونے والی تازہ رپورٹ کا مقصد پاکستان کو دباؤ میں رکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کا امریکہ میں اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ اس لیے واشنگٹن شاید پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے لیکن امریکہ کی پاکستان سے متعلق کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔
امریکی حکام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب وہ چاہتے ہیں پاکستان کو خوش کر دیتے ہیں اور جب وہ چاہتے ہیں پاکستان کو دبا دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے محکمہ خارجہ کی رپورٹ اس بات کا مظہر ہے کہ امریکہ کا اس خطے میں بھارت ایک شراکت دار ہے اور امریکہ بھارت کے مفادات کے پیش نظر جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی پوزیشن کو واضح کرتا رہے گا۔