بنگلا دیش اور سری لنکا جیسے جنوبی ایشیائی ممالک کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کے لیے چین سے رجوع کر رہے ہیں کیونکہ بھارت نے اپنے ملک میں وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ اور ویکسین کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث اس کی برآمد معطل کر دی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے بیجنگ کو اسٹریٹجک اہمیت کے حامل بحرہند کے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد ملے گی۔
چین نے اپنی سائنو فارم ویکسین کی 11 لاکھ خوراکیں سری لنکا کو دی ہیں جب کہ بنگلہ دیش کو اس مہینے چین سے پہلے عطیے میں پانچ لاکھ خوراکیں وصول ہوئی ہیں۔ چین نے نیپال کو بھی ویکسین کی مزید 10 لاکھ خوراکیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔
چین کی سپلائی سے ان ملکوں کو اپنے ہاں ویکسین لگانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں مدد ملے گی جو بھارت کی جانب سے فراہمی کی معطلی کے بعد رک گیا تھا۔ عالمی وبا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث یہ خوف سر اٹھا رہا تھا کہ کہیں کرونا وائرس کی دوسری لہر، جس سے بھارت نبرد آزما ہے، ہمسایہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔
امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے لیے پروگرام ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے ویکسین کی برآمد میں معطلی بیجنگ کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کے موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب بیجنگ کو اپنی ساکھ کے سلسلے میں مشکل وقت کا سامنا ہے، ویکسین ڈپلومیسی اس کام میں چین کی مدد کر سکتی ہے۔
سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے کئی ممالک کو، جنہیں چین کی تیار کردہ ویکسینز کے بارے میں ہچکچاہٹ کا سامنا تھا، پچھلے مہینے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے چین کی ویکسین سائنوفارم کے ہنگامی استعمال کے لیے منظوری مل گئی تھی جس کے بعد ان کے لیے چین سے ویکسین لینے کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے۔
اس سے قبل یہ ملک بھارت پر انحصار کر رہے تھے جس نے اس سال کے شروع میں سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال سمیت کئی ملکوں کو ایسٹرازینیکا اور دوسری ویکسینز فراہم کی تھیں۔ ان ملکوں نے بھارت میں قائم ویکسین بنانے والے دنیا کے سب سے بڑے مرکز سیرم لیبارٹریز کو کمرشل آرڈرز بھی دے دیے تھے لیکن بھارت میں وبا کے تیز پھیلاؤ کے باعث ان کی فراہمی رک گئی۔
پچھلے مہینے کئی ایشیائی ملکوں کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے خطے کے لیے ویکسین کا ایمرجنسی سٹاک رکھنے کی پیش کش کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب جب کہ چین، بھارت کے چھوڑے ہوئے خلا کو بھرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے، ویکسین ڈپلومیسی اس خطے میں بیجنگ کی مدد کر سکتی ہے جو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کے تحت کئی ملکوں میں انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل کرنا چاہتا ہے۔
دہلی میں قائم اورسیز ریسرچ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہرش پنت کہتے ہیں کہ اس چیز کے پیش نظر کہ یہ بحران مستقبل میں جاری رہ سکتا ہے، اگر بھارت صورت حال مستحکم ہونے کے چند ماہ بعد تک ویکسین میں اپنا حصہ نہ ڈال سکا تو ان ملکوں میں چین کو ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔
سری لنکا میں چین پہلے ہی بندرگاہ، سڑکوں اور ریلوے سمیت انفراسٹرکچر کے کئی اہم منصوبے مکمل کر چکا ہے اور اب وہ کولمبو کے قریب ایک اہم بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے۔
کولمبو کے ایک سیاسی تجزیہ کار اسانگا ابے یاگونا سیکیرا کہتے ہیں کہ چین کو ویکسین کی مدد سے ملک میں اپنی بڑھتی ہوئی موجودگی میں مزید اضافے کے لیے ایک اور جہت مل گئی ہے۔
وبا کی دوسری لہر شروع ہونے سے پہلے بھارت نے ویکسین کی ساڑھے چھ کروڑ خوراکیں بیرونی ملکوں کو بھیجی تھیں، جس کے بعد برآمد کو روکنا پڑا۔ نئی دہلی کو توقع ہے کہ وہ وبا پر قابو پانے کے بعد ویکسین کی سپلائی بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا موجودہ سال کے آخر تک ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
دوسری جانب چین دنیا بھر میں سب سے زیادہ ویکسین برآمد کرنے والے ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ وہ اس وقت ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کو ویکسین فراہم کر کے عالمی وبا پر قابو پانے میں وہاں کے ملکوں کی مدد کر رہا ہے۔