دنیا کے مختلف ممالک میں عوام کے لیے حکمرانوں کے محل تک رسائی اور وہاں پر گھومنا کافی مشکل ہوتا ہے لیکن جنوبی کوریا کے عوام کے لیے اب یہ سب ممکن ہو چکا ہے ۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سول میں واقع 'بلیو ہاؤس' جو صدارتی محل اور صدارتی دفتر ہوا کرتا تھا اب ایک عوامی مقام بن گیا ہے۔ لوگ 74 سال کے طویل عرصے کے بعد پہلی بار اس جگہ کو اندر سے دیکھ سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق جنوبی کوریا کے نئے سربراہ یون سک یول نے اپنے صدارتی دفاتر کو 'بلیو ہاؤس' سے منتقل کر دیا ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں موجود یہ محل اپنی چھتوں کے مخصوص نیلے ٹائلز کی وجہ سے 'بلیو ہاؤس' کہلاتا ہے۔
اس مقام کو دیکھنے کےلیے بڑی تعداد میں لوگ آ رہے ہیں جس کے باعث حکام نے یومیہ 39 ہزار افراد کویہاں آنے کی اجازت دی ہے۔
'بلیو ہاؤس' میں گزرتے برسوں کے دوران متعدد تبدیلی ہوئی ہیں۔کبھی یہاں شاہی باغ ہوا کرتا تھا۔
جزیرہ نما کوریا میں جاپان کی نو آبادیاتی حکومت کے دوران اس مقام کو گورنر جنرلز کی سرکاری رہائش گاہ بنا دیا گیاتھا۔
کوریا کی جاپان سے 1945 میں علیحدگی کے بعد امریکہ کی فوج نے اس جگہ پر قبضہ کر لیا تھا جو 1948 تک یہاں رہی۔ اس کے بعد یہ جنوبی کوریا کا سرکاری صدارتی دفتر اور رہائش گاہ بن گئی۔
لیکن اب اس صدارتی دفتر کو 74 سال کے بعد عوام کے لیے باقاعدہ طور پر کھول دیا گیا ہے۔نئے سربراہ کے اس اقدام کے بعد عوام اور سیاحوں کی بڑی تعداد اس 'بلیو ہاؤس' کے اطراف دکھائی دے رہی ہے۔
صدارتی دفتر کے ایک 61سالہ ورکر لی سینگ وون کہتے ہیں کہ وہ بہت شکر گزار ہیں کہ بلیو ہاؤس کو عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
انہوں نے حال ہی میں اپنے گھر والوں کے ہمراہ اس مقام کا دورہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اس مقام پر آکر بہت خوش ہیں۔
بلیو ہاؤس کو عوام کے لیے کھولنا جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے اس وعدے کا حصہ ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ محل کو چھوڑ کر لگ بھگ پانچ کلومیٹر دور یونگسن ضلع میں وزارتِ دفاع کے کمپاؤنڈ میں اپنا دفتر قائم کریں گے۔
جنوبی کورین صدر کے بقول انہوں نے وزارتِ دفاع کے کمپاؤنڈ کا انتخاب اس لیے کیا کیوں کہ وہاں سیکیورٹی سے متعلق سہولیات پہلے سے موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کی طرح کچھ بنانا ہے جس سے شہری عمارت کو قریب سے دیکھ سکیں۔ نئے دفاتر عوام کے ساتھ بہتر طریقے سے رابطوں میں مدد دیں گے۔
دوسری جانب صدارتی دفاتر کو منتقل کرنے کے منصوبے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے اور اسے جلد بازی اور غیرحقیقی قرار دیا جا رہاہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ جلد بازی میں سرکاری دفاتر کی منتقلی سے ایک جگہ پر بہت زیادہ سرکاری وسائل استعمال کرنے سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس سے بہت زیادہ لاگت اور علاقے میں رہنے والے لوگوں کے املاک کے حقوق کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔
صدر کے پیش رو مون جائے نے بھی یون کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر نے ناکافی عوامی رائے سنے بغیر فیصلہ کیا۔
بلیو ہاؤس کے قریب مارکیٹ کے 60 سالہ چوئی جن چائے کہتے ہیں کہ انہیں اپنے پڑوس سے صدارتی دفاترختم ہونے پر افسوس ہے لیکن انہیں امید ہے کہ منتقلی سے مزید سیاح وہاں آئیں گے اور مقامی کاروبار کو فروغ ملے گا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بلیو ہاؤس کے قریب کا علاقہ ریلیوں اور مارچز کا گڑھ بھی ہوا کرتا تھا اور ہزاروں لوگ اس مقام پر جمع ہوتے تھے جس سے قریبی رہائشی شور اور ٹریفک کی بھیڑ کی شکایت کرتے تھے۔
اس خبر میں شامل مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔