جنوبی کوریا میں جب کوئی شخص اپنی عمر بتاتا ہے کہ تو بہت ممکن ہے کہ وہ اس کی اصل عمر نہ ہو کیونکہ وہاں عمر کا تعین کرنے کے تین نظام رائج ہیں جن سے عمر میں ایک سے دو سال کی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ یہ فرق ان کی روزمرہ زندگی میں کئی طرح کے مسائل اور الجھنیں پیدا کرتا ہے۔ شاید اسی لیے جنوبی کوریا کے نو منتخب صدر یون سک یول نے کہا ہے کہ وہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ملک میں عمر کے تعین کا یکساں نظام نافذ کریں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا کے معاشرے میں روایات کی جڑیں اتنی گہری اور قدیم ہیں کہ آسانی سے انہیں چھوڑا نہیں جا سکتا۔ اس سے پہلے بھی انہیں تبدیل کرنے کی معتدد کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
جنوبی کوریا صنعتی اعتبار سے ایک بہت ترقی یافتہ ملک ہے۔ مگر دوسری جانب وہ ایک روایت پسند معاشرہ ہے۔ ان روایات کی کڑیاں زمانہ قبل از تاریخ سے جڑی ہیں اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہاں پیدائش کے وقت نوزائیدہ بچے کی عمر ایک سال مقرر کرنے کا رواج کب سے شروع ہوا۔کچھ محققین کا خیال ہے کہ شاید اس کا تعلق زچگی کے ابتدائی ایام ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ غالباً یہ ہے زمانہ قبل از تاریخ کی کوریائی گنتی میں صفر نہیں ہوتا تھا اور گنتی کی شروعات ایک سے کی جاتی تھی۔ چنانچہ جب بچہ پیدا ہوتا تھا اس عمر صفر سال کی بجائے ایک سال مقرر کر دی جاتی تھی۔
بات صرف اتنی نہیں ہے کہ پیدائش کے وقت بچے کی عمر ایک سال ہوتی ہے بلکہ اس سے آگے کے مراحل اور بھی پیچیدہ مگر دلچسپ ہیں۔ بچے کی عمر میں اضافہ اس کی تاریخ پیدائش پر نہیں بلکہ یکم جنوری سے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ 31 دسمبر کو پیدا ہوا ہے تو صرف ایک دن کے بعد یعنی یکم جنوری کو اس کی عمر ایک سال کے اضافے سے دو سال ہو جائے گی۔
عمر کے تعین کا تیسرا نظام وہاں کے تعلیمی اداروں کا ہے۔ وہاں کا اسکول سسٹم چین کی روایتی سال کے تحت کام کرتا ہے۔ چینی سال مارچ سے شروع ہوتا ہے۔ اسکول بھی عمر کا تعین تاریخ پیدائش کی بجائے سال کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ مثلاً یکم مارچ سے فروری کے اختتام تک پیدا ہونے والے تمام بچوں کی عمر یکساں تصور کی جاتی ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ فروری کے آخری دن پیدا ہونے والے بچے کی عمر میں ایک سال کا اضافہ کر کے اسے اپنے ہم عمر بچوں کی کلاس میں بٹھا دیا جاتا ہے جس سے بعض اوقات بچوں کو مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔
لی یون چل جنوبی کوریا کے شمالی مشرقی صوبے گانگ ون میں اپنا ایک کیفے چلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کی عمر روایتی کلینڈر کے مطابق 9 سال ہے۔ مگر اصل میں وہ اپنی حقیقی عمر سے چھوٹا ہے۔ اس لیے وہ کلاس میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے ہے کیونکہ ان کی عمریں اس سے زیادہ ہیں۔
بات صرف اسکول میں داخلے تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے اثرات زندگی بھر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جنوبی کوریا میں نوجوانوں کے لیے فوجی تربیت لازمی ہے۔ عمر کے تعین کے فرق کی وجہ سے 18 سال کی عمر کے گروپ میں وہ بچے بھی شامل کر لیے جاتے ہیں جن کی حقیقی عمر 16 سال ہوتی ہے۔
کووڈ۔19 کے عروج کے دور میں عمروں کے متوازی نظاموں نے کئی طرح کے مسائل پیدا کیے۔ مثلا کئی جگہوں پر داخلے کے لیے ویکسین لگوانے کا سرٹیفیکیٹ دکھانے کی ضرورت تھی جب کہ کچھ نوجوان سرٹیفیکٹ اس لیے پیش نہیں کر سکتے تھے کہ وہ ابھی ویکسین لگانے کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔
آپ پوچھیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کی وجہ بھی بڑی دلچسپ ہے اور وہ یہ کہ 1960 سے سرکاری ریکارڈ اور عدالتی کارروائیوں میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ طریقے کے مطابق تاریخ پیدائش کے تحت عمر کا اندراج کیا جاتا ہے۔ سرکاری ریکارڈ روایتی عمر کو قبول نہیں کرتا جب کہ روایت پسند کوریائی باشندے اپنی روایتی عمر پر اصرار کرتے ہیں اور اسی کے مطابق اپنے روز و شب گزارتے ہیں۔
معاشرے میں عمر کے تعین کے رائج تین نظاموں کے اثرات اس ملک میں زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں، خاص طور پر ایسے موقعوں پر مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں جب کچھ سہولتوں کی فراہمی کو عمر سے جوڑ دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے کئی اہل لوگ نااہل قرار دے دیے جاتے ہیں اور کئی نااہل، اہل قرار پاتے ہیں۔
ہینڈبک ریسرچ کے تحت جنوری میں کرائے گئے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ 71 فی صد لوگ عمر کے تعین کے نظام کو سادہ بنانے کے لیے روایتی طریقہ کار کو ختم کرنے کے حق میں ہیں۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کے باوجود وہ اپنی قدیم روایت سے آسانی سے دستبرار نہیں ہوں گے اور نو منتخت صدر کو مرحلہ وار آگے بڑھانا ہو گا۔
جنوبی شہر بوسان میں واقع ڈونگ اے یونیورسٹی کے پروفیسر ہان سائی ایک کہتے ہیں کہ عمر کا مسئلہ دراصل ایک ثقافتی روایت ہے۔ رسم ورواج اور اداروں کے درمیان فرق کم کرنے کے لیے واضح ہدایات اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔